ٹیلی کام کمپنیوں نے نان فائلرز کی 75 فیصد کٹوتی کو غیرقانونی کام اور غیرقانونی جرمانہ قرار دے دیا۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں ٹیلی کام کمپنیوں کی طرف سے فنانس بل میں ٹیکس پر بریفنگ دی گئی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ٹیلی کام کمپنیوں کے نمائندے نے کہا کہ حکومت نے مشورہ کیے بغیر اپنا کام ٹیلی کام کمپنیوں پر لاد دیا ہے، ہمارا یہ کام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کا کام کروایا جارہا ہے۔ ہم قانونی طور پر کسی کی سمز بند نہیں کر سکتے۔
ٹیلی کام کمپنیوں کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ٹیلی کام کمپنیاں قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں ہیں، ہم اگر سمز بند کرنے میں ناکام ہوں تو ہمیں 10 سے 20 کروڑ جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ہمیں کہا جارہا ہے کہ نان فائلرز کے فون کی 75 فیصد کٹوتی کرو۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے، نہ مشورہ کیا گیا، بس ہم پر لاد دیا گیا۔ یہ غیرقانونی کام اور غیرقانونی جرمانہ ہے۔
نمائندہ ٹیلی کام کمپنیز کا کہنا تھا کہ ہمارے غیرملکی سرمایہ کار اس سے سخت پریشان ہیں۔ ٹیلی کام کمپنیاں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہی ہیں۔
اس موقع پر سینیٹر محسن عزیز کا کہنا تھا کہ کمپنیوں کے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اور جو جرمانہ عائد کیا جائے گا وہ بہت زیادہ ہے، ان کی بات میں بہت وزن ہے، ان کا مسئلہ حل کیا جائے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سوال کیا کہ اگر کوئی نان فائلر ہے تو موبائل کمپنیاں کس طرح اس کا ٹیکس وصول کرسکتی ہیں؟
اجلاس کے دوران چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ صرف شناخت شدہ 24 لاکھ نان فائلرز میں سے 5 لاکھ کی سمز بند کرنے کا کہا ہے۔ تمام ودہولڈنگ ٹیکس وصول کرنے والوں کی طرح ان کو کام کرنا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کی منظوری پارلیمنٹ نے 2022 کے فنانس بل میں دی، ان کو 15 دن کے اندر ان احکامات پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں ہر 2 ہفتے بعد 10 کروڑ روپے جرمانہ کی تجویز ہے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ تو بہت ناجائز جرمانہ ہے، اس طرح تو جنگل کا قانون ہوتا ہے۔
نمائندہ ٹیلی کام کمپنی کا کہنا تھا کہ ہم قانونی طور پر کسی کی سمز بند نہیں کرسکتے۔ نان فائلر کی 75 فیصد ادائیگی کاٹنے کی شرط جائز نہیں ہے۔