موسمیاتی تبدیلی: عالمی امداد کا مستقبل

 عالمی درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لئے اہم امور پر بات چیت کرنے کے لئے سی او پی 29 (ممالک کی نمائندہ تنظیم) تیاری کر رہی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی آفات رونما ہونے کی تعداد اور امکانات زیادہ ہیں جس سے اِن ممالک کی ترقی متاثر ہے جبکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے پاس دستیاب محدود وسائل اس طرح کی آفات کے بعد امداد اور بحالی کی کوششوں پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی معاشی ترقی مزید سست ہو جاتی ہیں جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان اب بھی سال دوہزاربائیس کے سیلاب سے متاثرہ آبادی کی بحالی تاحال مکمل نہیں ہو سکی ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات نے وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو جکڑ رکھا ہے۔ سی او پی 27 میں‘ امیر ممالک ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا اور یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لئے خصوصی فنڈ بنایا جائے گا۔ سی او پی 28 کے افتتاحی سیشن میں خصوصی فنڈ کے قیام کو ترقی پذیر ممالک نے سراہا اور آب و ہوا میں تبدیلی سے ہوئے نقصانات سے متعلق اپنے حقوق کے تحفظ اور حصول میں اِسے بڑا اقدام قرار دیا۔ ترقی پذیر ممالک نیفوری طور پر تقریبا 700 ملین ڈالر دینے کے وعدوں کا اعلان کیا تھا۔ سی او پی 28 میں ایل اینڈ ڈی فنڈ کے کچھ اہم پہلوؤں کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا جو ساخت‘ ڈھانچے اُور طریقہ کار کے معاملات سے متعلق تھے۔ فنڈ کا بورڈ چھبیس ارکان پر مشتمل ہوگا جس میں صرف بارہ ارکان ترقی یافتہ ممالک سے ہوں گے تاہم حتمی گورننس اور مالیاتی ڈھانچے کا فیصلہ رواں سال آذربائیجان کے شہر باکو میں ہونے والے سی او پی اُنتیس میں کیا جائے گا۔ ایل اینڈ ڈی فنڈ کی مکمل آپریشنلائزیشن کو یقینی بنانے کے لئے کے لئے کئی اہم شعبوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے‘ وعدوں کو رقم کے طور پر شمار نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اصل رقم فنڈ میں منتقل نہیں کی جاتی ہے۔ اس کے علاؤہ موسمیاتی تبدیلی کی آفات سے متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک سے امداد کے مطالبات اربوں میں ہیں لیکن اعلان کردہ رقم لاکھوں میں ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی کی آفات کا مشاہدہ کرنے والے بہت سے ترقی پذیر ممالک مدد فراہم کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ پاکستان اب بھی 2022ء کے سیلاب سے تباہ ہونے والے اپنے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لئے سولہ ارب ڈالر امداد کا منتظر ہے۔ صومالیہ کو بھی سال 2023ء میں اچانک سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا جس سے چار لاکھ ساٹھ ہزار افراد متاثر ہوئے تھے۔ چاڈ کو آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے ایک غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے اور دوہزاربائیس میں سیلاب کا سامنا کرنا پڑا‘ جس سے دس لاکھ افراد متاثر ہوئے لہٰذا‘ پہلا چیلنج یہ ہے کہ ماحولیاتی امدادی فنڈ کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے موسمیاتی تبدیلی کی آفات سے متاثر ہونے والے تمام ترقی پذیر ممالک کی مدد کی جائے اور اِس مدد کے لئے کافی مقدار میں فنڈز فراہم کئے جائیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ایل اینڈ ڈی فنڈ میں دی جانے والی مالی اعانت رضاکارانہ ہے۔ مالی تعاون موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے کے لئے مختلف امیر ممالک کی ذمہ داری کے برابر ہونا چاہئے تاہم‘ ترقی یافتہ ممالک سے رقم نکالنے کے لئے کوئی قائم شدہ میکانزم یا فارمولا نہیں ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی آفات کے ذمہ دار ہیں۔سیکریٹریٹ اور اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تقرری کے ساتھ بورڈ کی تشکیل کو حتمی شکل کے علاؤہ اہم چیلنج فنڈ کی تقسیم کا طریقہ کار بھی ہے۔ انتظامی اخراجات کم کرنے کے لئے فنڈز کی منتقلی میں تیسرے فریق کے کردار کو ختم کرنے کا امکان بھی بورڈ کی سطح پر زیر غور ہے۔ اس طرح کے میکانزم کے تحت اخراجات میں کمی اور رقم کی منصفانہ اور شفاف تقسیم کے مجموعی اثرات کو دیکھنے کے لئے اس کا تجزیہ کیا جائے گا۔ فنڈز حاصل کرنے والے ترقی پذیر ممالک کی شفافیت اور احتساب کو اپنانا بھی سوالیہ نشان ہے۔ امیر ممالک میں اس کے حقیقی مقصد کے لئے فنڈز کے استعمال کے بارے میں خدشات ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ فنڈز متاثرہ آبادی کے لئے استعمال کئے جائیں‘ نہ کہ دیگر ترقیاتی منصوبوں کے لئے یا کرپشن میں ضائع ہوں۔ اسی طرح‘ فنڈز کی منتقلی کے لئے آب و ہوا سے متاثر ترقی پذیر ممالک کو کس طرح ترجیح دی جائے؟ کیا فنڈز کی منتقلی کے لئے ممالک کے انتخاب کا معیار تباہی کی شدت یا پہلے آؤ پہلے دیکھو کی بنیاد یا آب و ہوا کی تبدیلی کی آفات سے متاثر ہونے والے تمام ترقی پذیر ممالک کے درمیان رقم کی مساوی تقسیم ہونی چاہئے؟ ماحولیاتی اثرات و تبدیلیوں سے امداد کے لئے ’نقصان فنڈ‘ کا مستقبل اس کے طریقہ کار اور گورننس سسٹم کے تحت حل کئے جانے والے بہت سے تکنیکی سوالات پر منحصر ہے جن پر آذربائیجان میں ہونے والے آئندہ سی او پی 29 میں تبادلہئ خیال اور منظوری دی جائے گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔