ماحولیاتی تبدیلی اور ذرائع ابلاغ

    صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اس بات پر سوچ بچار ہو رہی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورتحال میں ذرائع ابلاغ کا کردار کیا ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کس طرح مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں؟ خبروں کو جمع کرنے اور ان کی تیاری کی لاجسٹکس آسان نہیں رہا۔ صحافیوں کو آب و ہوا سے متعلق آفات کی کوریج کرتے ہوئے سخت اور مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق خبرنگاری کرنا آسان نہیں ہوتا اور انہیں تباہ شدہ سڑکوں‘ بنیادی ڈھانچے اور مواصلاتی نظام کی مکمل بندش جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی سیلاب سے متاثرہ علاقے میں پہنچنا اور وہاں پہنچ کر رپورٹ ارسال کرنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ مہنگائی و دیگر محرکات کی وجہ سے پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہے۔ نشریاتی تنصیبات‘ ٹرانسمیشن ٹاورز اور پرنٹنگ پریس ہر دن مہنگی ہو رہی ہیں اور جب قدرتی آفات آتی ہیں تو ان کے اثرات سے ذرائع ابلاغ کے ادارے بھی محفوظ نہیں رہتے۔ سال دوہزاربائیس میں پاکستان میں آنے والے سیلاب نے ان مسائل کو واضح طور پر اجاگر کیا تھا۔ دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنیوالے صحافیوں کو تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور پلوں نے ان کے سفر کو تقریباً ناممکن بنا دیا تھا۔ بجلی کی بندش اور مواصلاتی بریک ڈاؤن نے مزید افراتفری پیدا کی۔ مثال کے طور پر پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کے علاقے کوٹ چٹھہ سے تعلق رکھنے والے ایک نجی اخبار کے 
رپورٹر عزادار حسین سیلابی پانی میں گردن تک پھنس گئے اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس خبر کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی۔ توجہ طلب ہے کہ صحافی صرف سماج دشمن عناصر ہی سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ وہ ماحولیاتی رپورٹنگ میں اپنی زندگیوں کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی کا احاطہ کرنے کا مطلب اکثر سیلاب‘ طوفان‘ جنگل کی آگ اور ہیٹ ویو جیسے شدید موسمی واقعات ہوتے ہیں جن کی فرنٹ لائن سے رپورٹنگ کرنا ہوتی ہے۔ ان خطرناک حالات میں رپورٹنگ کی ضرورت نے صحافیوں کو شدید خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ رپورٹرز متاثرین کی طرح ہیٹ ویو کا سامنا کرتے ہیں جو ہیٹ اسٹروک‘ ڈی ہائیڈریشن اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ جنگل کی آگ کی صورت میں ہر طرف دھواں پھیلا ہوتا ہے جس میں سانس لینا آسان نہیں ہوتا اور پھر سیلابی علاقوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں عام ہوتی ہیں۔ بہت سے صحافی تھکاوٹ کی وجہ سے گر بھی جاتے ہیں‘ جنہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بریکنگ نیوز کو تیزی سے پہنچانے کا دباؤ اکثر ضروری موسمی احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرنے کا باعث بنتا ہے‘ جس سے رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ماحولیاتی رپورٹنگ میں نقصان صرف مشقت کا نہیں اور نہ ہی صرف جسمانی ہوتا ہے۔ مسلسل خبریں ارسال کرنے کے عمل جسے ”نیوز سائیکل“ اور ”رئیل ٹائم اپ ڈیٹس“ کہا جاتا ہے کی وجہ سے صحافی اپنے اعصاب پر تناؤ محسوس کرتے ہیں اور بسا اوقات اس سے صحافت کے معیار پر سمجھوتہ بھی ہوتا ہے۔ انسانی مصائب اور تباہی کا براہ راست مشاہدہ کرنے سے بے چینی‘ پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر پیدا ہوسکتی ہے جو کرہئ ارض کے مستقبل کے بارے میں بڑھتا ہوا خوف ہے۔ ڈارٹ سینٹر فار جرنلزم اینڈ ٹراما (کولمبیا یونیورسٹی جرنلزم سکول) کی جانب سے کئے گئے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی آفات کی کوریج کرنے والے 80 فیصد سے زیادہ صحافیوں کو تناؤ اور اضطراب کی شکایت رہی۔ ایسے حالات میں اخلاقی الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ صحافیوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ غیر فلٹر شدہ سچائی کو بیان کرنے اور عوام میں پائی جانے والی گھبراہٹ یا مایوسی روکنے کے درمیان ایک نازک توازن قائم کریں۔ یہ چیلنج پورٹو ریکو میں سال دوہزارسترہ کے سمندری طوفان ماریا کے دوران دیکھا گیا تھا‘ جہاں صحافیوں کو قدرتی آفت کے تباہ کن اثرات کے بارے میں صدمے سے دوچار افراد کا انٹرویو کرنے کے مشکل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ان کی رپورٹنگ سے رہائشیوں میں پہلے ہی سے موجود خوف و ہراس میں مزید اضافہ نہ ہو۔ پاکستان میں بھی صحافیوں کو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونیوالے بڑھتے ہوئے چیلنجز سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ ماحولیاتی صحافت میں ڈیجیٹل اظہار بیان (جدت طرازی)‘ مؤثر 
مواصلات اور مشترکہ رپورٹنگ کے تصور کے تحت مقامی صحافیوں اور سماجی کارکنوں یا تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ان میں گلوبل نیبر ہوڈ فار میڈیا انوویشن نے گرین جرنلزم فیلوشپ پروگرام کا آغاز کیا ہے اور صحافیوں‘ فلم سازوں اور ڈیجیٹل مواد تیار کرنے والوں کیلئے متعدد تربیتی سیشنز کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد شرکا کو آب و ہوا پر مرکوز کہانیوں کا احاطہ کرنے کے لئے جدید ترین تکنیک اور ڈیجیٹل ٹولز سے لیس کرنا ہے تاکہ بالآخر دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو کم کرنے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔ مذکورہ فیلوشپ بین الاقوامی مشترکہ کوششوں کا بھی احاطہ کرتی ہے جس میں شرکا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ تبدیلی ماحول سے متعلق اہم عالمی چیلنج پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ اپنے ساتھی صحافیوں کی تربیت بھی کریں۔ ماحولیاتی رپورٹنگ میں ڈرونز کیمروں اور سیٹلائٹ تصاویر جیسی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے جن کی مدد سے ناقابل رسائی علاقوں میں رپورٹنگ ممکن ہوئی ہے اور اس سے صحافی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے رپورٹنگ کر سکتے ہیں۔ ساتھی صحافیوں کے ساتھ تعاون اور مواصلات کے ڈیجیٹل طریقوں سے فائدہ اٹھانے سے صحافیوں کو لاحق خطرات میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے تاہم کسی بھی آفت یا مشکل کی صورتحال میں اہم ضرورت یہ بھی ہوتی ہے کہ اخلاقی رپورٹنگ کی جائے اور ذمہ دارانہ صحافت کرنے جیسا کردار ادا کرتے ہوئے سچائی اور حقائق کو متوازن بنا کر پیش کیا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سید مسعود رضا۔ ترجمہ ابوالحسن امام)