پاکستان میں اعلی تعلیم کے معیار اور اِس کے تناظر میں یونیورسٹی(کسی جامعہ) کا مقصد کیا ہے؟ تاریخی طور پر پاکستانی یونیورسٹیوں (جامعات) کا بنیادی کام تعلیم فراہم کرنا ہے اور دنیا بھر میں کام کرنے والے انجینئرز اور ڈاکٹروں جیسے تربیت یافتہ گریجویٹس پیدا کرنے ہوتے ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیوں نے انیس سو چالیس سے انیس سو ستر کی دہائی کے دوران شہری اور سیاسی تحریکوں میں بھی اہم کردار ادا کیا جیسا کہ آزادی کی تحریک اور اِن جامعات نے وقت کے ساتھ مختلف سیاسی رہنما پیدا کئے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں اعلی تعلیمی اصلاحات کی گئیں جس نے تحقیق کو پاکستانی یونیورسٹیوں کی بنیادی سرگرمی کے طور پر ترجیح دی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)قائم کیا گیا جس نے تحقیق کی کارکردگی کی پیمائش کے لئے اصول اور معیار تیار کئے تھے اور اس سے ماہرین تعلیم کی بھرتی ترقی اور پاکستانی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی بہتر ہوئی۔سال دوہزارتیئس اور چوبیس کے اقتصادی جائزے (پاکستان اکنامک سروے)سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹیوں کی تعداد سال دوہزار میں اٹھاون سے بڑھ کر دوہزارچوبیس میں 259 ہوگئی۔ صرف اسلام آباد میں 29یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔ ایچ ای سی اصلاحات نے سرکاری اور نجی شعبوں کو پاکستان بھر میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔ اعلی تعلیم تک رسائی 2002میں 2.6 فیصد سے بڑھ کر 2024میں دس فیصد ہوگئی۔ اسی طرح تعلیمی مضامین کی تعداد 641 سے بڑھ کر 30ہزار اور پی ایچ ڈی فیکلٹی کی تعداد 800 سے بڑھ کر 35ہزار ہو گئی۔ ان خوشگوار اعدادوشمار کے باوجود پاکستانی یونیورسٹیاں مالی طور پر مستحکم نہیں اور اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ اِن جامعات میں ہونے والی تحقیق کا معیار بھی خاطرخواہ نہیں ہے۔ دوسری طرف جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے گریجویٹس بھی معیار قائم نہیں رکھ سکے اور یونیورسٹیاں ملک کی سماجی و اقتصادی کارکردگی میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سال دوہزاردو کے آرڈیننس کے بنیادی مقصد پر زور نہیں دیا گیا جس کے تحت ایچ ای سی کو ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے فروغ کے لئے اعلی تعلیمی اداروں کے لئے پالیسیاں رہنما اصول اور ترجیحات مرتب کرنے کی ضرورت تھی۔ ہمیں اپنی یونیورسٹیوں کی جانچ پڑتال کرنی چاہئے کہ ہم کیا پڑھاتے ہیں اور کس طرح تحقیق کرتے ہیں اور ہماری یونیورسٹیاں پاکستان کی کامیابی میں کس طرح کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمیں روائتی طریقوں سے ہٹنا ہوگا کیونکہ بہت سی یونیورسٹیاں ایسے طالب علم پیدا کر رہی ہیں جو ملک کی ترقی میں خاطرخواہ کردار ادا نہیں کر رہے۔ پاکستان میں اعلی تعلیم کا مستقبل اس بات سے متعین نہیں ہوتا کہ ہم کتنی نئی یونیورسٹیاں قائم کرتے ہیں کتنے طالب علم پیدا کرتے ہیں اور ہر سال کتنے مقالے شائع کرتے ہیں بلکہ اعلی تعلیم کا مقصد و مستقبل اس بات سے ہے کہ یہ یونیورسٹیاں قومی اور صوبائی ترقی میں کس طرح اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک ایسی یونیورسٹی بنانے کے لئے جو مستقبل پر مرکوز ہو ہمیں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں یونیورسٹی کے مقصد پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اگلی دہائی میں پاکستانی یونیورسٹیوں کو ایسی باصلاحیت قیادت پیدا کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا جو ملک کی معاشی پیداوار میں اضافہ کرے برآمدات کو دوگنا کرے اور سماجی طور پر بہتری میں حصہ لے۔ ہمیں اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لئے قومی صوبائی اور ضلعی سطح پر مسائل اور ان کے حل سے آگاہ قیادت کی ضرورت ہے جس کے لئے تدریسی اور تحقیقی طریقوں کی منصوبہ بندی اور یونیورسٹیوں کے بنیادی ڈھانچے میں مزید سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ مشورہ ہے کہ قومی صوبائی اور ضلعی سطح کی ترجیحات تیار کی جائیں اور انضباطی تدریس تحقیق اور صنعت یا حقیقی دنیا کی شراکت سے اعلی تعلیم کو منظم و مربوط کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے ایچ ای سیز نہ صرف فنانسر کے طور پر اپنا کردار ادا کریں بلکہ ملک کی اجتماعی استعداد کو فروغ دینے کے لئے معاشی سماجی اور ماحولیاتی ایجنڈے اور پالیسیوں کے شراکت دار بھی بنیں۔ وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک بھر میں اعلی تعلیم کے نقطہ نظر پالیسیوں اور فنڈنگ کو فروغ دینے کے لئے بااختیار بنایا جانا چاہئے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ قومی سطح پر اعلی تعلیم کے لئے کیا کچھ بہتر ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر ایم عمران۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
ان کے پاس ملک بھر میں کوآرڈینیشن تعاون اور معیار کی یقین دہانی کا میکانزم ہونا چاہئے۔ نیدرلینڈز اور فن لینڈ میں اعلی تعلیم تفریق اور تعاون کے اِن ماڈلوں پر کام کیا جاتا ہے جہاں طویل مدتی منصوبہ بندی اور جرات مندانہ قومی ویژن قانون سازی اور پالیسیوں کی مدد سے قومی ترقی میں بہتر نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔یونیورسٹیوں کو اپنے مالی و انتظامی فیصلوں میں خودمختاری دی جانی چاہئے۔ ایک یونیورسٹی کو ایسے علم اور ایسی تحقیق کو فروغ دینا چاہئے جو ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں حصہ ڈال سکے جیسا کہ ایچ ای سی آرڈیننس میں بیس سال پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔