پاک بھارت: خارجہ امور

اکیسویں صدی پاکستان پر مہربان دکھائی نہیں دے رہی۔ نئی صدی کے ایک چوتھائی سفر میں‘ عالمی سطح پر پاکستان کی اپنے مفادات کے حصول کیلئے جدوجہد جاری ہے جس کے ساتھ موجودہ کثیر الجہتی بحران پر قابو پانے‘ صبر و تحمل سے اپنے بین الاقوامی تعلقات کی تجدید نو‘ نئے سرے سے سوچنے اور ایک ایسے بھارت کی طرف بڑھنے کیلئے اپنے اندر اعتماد کی تلاش کرنا ہوگا جو کم مضبوط ہو۔ حالیہ بھارتی انتخابات کے نتائج نے ہندوتوا کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے جس میں جی ڈی پی کی شرح نمو اور چین کے مقابلے میں بھارت کی حیثیت جیسے پہلو بھی شامل ہیں۔ واضح معاشی عدم مساوات‘ چین کے خلاف نسبتا کمزوری‘ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بڑے پیمانے پر غربت‘ بے چینی اور اقلیتوں کے حقوق‘ خاص طور پر مسلمانوں کو منظم طریقے سے دبانے کی پالیسی نے ’شائننگ انڈیا‘ کی مصنوعی چمک دمک کو نقصان پہنچایا ہے۔ چین کے برعکس بھارت اپنی آبادی کی اکثریت کو غربت سے نکالنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ اب بھی غربت میں دھنسا ہوا ا ور قبل از جدید ہے جبکہ مذہبی‘ نسلی اور ذات پات کی خرابیوں کے ساتھ علیحدگی کی تحریکوں سے بھارت کا واسطہ ہے۔ مغربی کمپنیاں اپنی مینوفیکچرنگ کو چین سے دور بھارت کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن مینوفیکچرنگ میں یہ تیزی ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ امریکہ کی اپنی ’انڈو پیسیفک‘ حکمت  عملی میں بھارت کا حصہ عملی سے زیادہ نظریاتی دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت اب تک بہت سے بین الاقوامی تنازعات میں دونوں فریقوں کا ساتھ دینا چاہتا ہے کم از کم روس یوکرین جنگ اور ایران اسرائیل کشیدگی میں بھارت دونوں فریقین کے ساتھ ہے۔ ابھرتا ہوا چین جلد ہی امریکہ کو مجبور کرے گا کہ وہ ایران‘ روس اور تائیوان کے خلاف بھارت پر اپنے انحصار کو ختم کرے۔ بھارت کی علاقائی ساکھ بھی تاریخ کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ نیپال‘ سری لنکا اور حال ہی میں مالدیپ نے چین کے ساتھ سنجیدہ تعاون کی کوشش کی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک نشست کیلئے بھارت کی کوششوں کو بار بار مایوس ہونا پڑا۔ اس کی خود ساختہ سپر پاور کی حیثیت اس کی علاقائی بالادستی کے فقدان کی وجہ سے ناکام ہے لہٰذا ہمارا مشرقی ہمسایہ اتنا مضبوط نہیں ہے جتنا کہ نظر آتا ہے لیکن چین کے خلاف مغرب کے سخت مؤقف نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھارت کے ساتھ سخت معاشی اور فوجی تعلقات پر مجبور کر رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت اتنا مضبوط نہ ہو جس قدر چرچا کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان کے اپنے چیلنجز ہیں۔ پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان مضبوط رسی پر چل رہا ہے اور بھارت کے خلاف کھڑا ہونے کی کوشش بھی کر رہا ہے ا ور یہ بین الاقوامی ماحول سے زیادہ سے زیادہ لاتعلق نظر آتا ہے ا ور یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بھارت بدترین دشمن ہے۔ روایتی افواج اور ہتھیاروں کے ساتھ بھارت ا ور پاکستان کا فرق اب ایک سے تین کے تناسب سے ہے۔ بھارت کی فوجی طاقت ا س کی سرحدی لمبائی کی وجہ سے کم ہے۔ پاکستان کو دوسری افغان جنگ میں اپنے طرز عمل اور 2021ء کے بعد افغانستان کیساتھ تعلقات میں گراوٹ‘ جاری معاشی تنزلی‘ جدیدیت اور اصلاحات کے خلاف مزاحمت‘ پرتشدد انتہا پسندی سے بار بار درپیش چیلنجز کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نئے سیاسی فاشزم کی وجہ سے کمزور پڑنے والی صورتحال میں پاکستان کو سخت قدم اٹھانا پڑے گا۔ بھارت اور پاکستان کی اقتصادی اور سفارتی طاقت کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق نے نریندر مودی کو 2016ء میں مجبور کیا کہ وہ جنگی حکمت عملی اپنائیں یہی وجہ تھی کہ 2017ء میں بھارت نے لائن آف کنٹرول پر بمباری میں اضافہ کیا اور 2018ء میں اس میں مزید اضافہ ہوا ا س وقت سے پاکستان کے پاس جوابی حکمت عملی نہیں تھی۔ اس سے 2019ء کے اوائل میں بھارت کو پاکستان کی فضائی حدود عبور کرنے کی نصف صدی پرانی پابندی کو توڑنے کا حوصلہ ملا۔ بھارت کے پاس پاک فضائیہ کی بہادری کا جواب تھا کیونکہ پاکستان کو بغیر کسی واضح بدلے کے لیفٹیننٹ ابھینندن کو واپس کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کی وجہ سے مسٹر مودی نے دوہزارا نیس کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور فیصلہ کن اگلا قدم اٹھایا تاہم وہ اپنی خواہش کے مطابق جیت نہ پا سکے۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر انجینئر خرم دستگیر خان۔ ترجمہ ا بوا لحسن ا مام)