معروف مفکر نوم چومسکی اپنے خیالات کے اظہار میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے پر قبضے کی حیثیت کو برقرار رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ انسان سے غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں‘ اُنہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ہیروز کی تلاش میں نہیں بلکہ اچھے خیالات کی تلاش میں رہنا چاہئے۔ اگر ہم اُن لوگوں کے لئے اظہار رائے کی آزادی پر یقین نہیں رکھتے جن سے ہم نفرت کرتے ہیں تو یقیناً ہمارے خیالات اچھے نہیں اور ہم آزادیئ اظہار پر یقین نہیں رکھتے۔ لوگوں کو غیر فعال اور فرمانبردار رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قابل قبول رائے کے دائرے کو سختی سے محدود کیا جائے لیکن اس حوالے سے بحث کئی زاویہ سے کی جا سکتی ہے جیسا کہ ہم پاکستان میں کرتے ہیں۔نوم چومسکی کے خیالات میں طاقتوروں کے نزدیک ”جرائم وہ ہوتے ہیں جو دوسروں سے سرزد ہوں! طاقتور لوگ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ”تعلیم مسلط کردہ جہالت کا نظام رہے۔ یہ دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سچ بولیں اور طاقتوروں کے جھوٹ کو بے نقاب کریں۔ میرے خیال میں زندگی کے ہر پہلو میں اختیار‘ درجہ بندی اور غلبے کی تلاش اور شناخت اور انہیں چیلنج کرنا ہی سمجھ میں آتا ہے۔ جب تک کہ کوئی جواز پیش نہ کیا جائے جس سے وہ ناجائز ثابت ہوں۔ یہ بنیاد پرست اسلام نہیں جو امریکہ کو پریشان کر رہی ہے بلکہ یہ آزادی ہے۔ اچھے پراپیگنڈے کا ایسا نعرہ بنانا ہوتا ہے جس کے خلاف کوئی نہ ہو اور ہر کوئی اس کے حق میں ہو۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا کیا مطلب ہے کیونکہ اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ کیسے ہے کہ ہمارے پاس اتنی معلومات ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم اتنا کم جانتے ہیں؟ (کیا ہمارے عوامی دانشور اور بیوروکریٹک دانشور اِس قول کی حقیقت پر غور کریں گے کہ اپنے علم کے بارے میں وہ جو کچھ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں اُس میں کس قدر دکھاوے کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ طاقت رکھنے والے لوگ ہمیشہ تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ کو تشدد کے استعمال کے خلاف کبھی بھی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اس کا دفاع کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہریوں کی بجائے نیو لبرل جمہوریت عوام نہیں بلکہ صارفین پیدا کرتی ہے۔ یہ برادریوں کی بجائے شاپنگ مالز تیار کرتی ہے اور اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ الگ تھلگ افراد کا ایک معاشرہ تخلیق پاتا ہے جو خود کو حوصلہ شکن اور سماجی طور پر بے اختیار محسوس کرتا ہے۔ یہ طرزعمل پوری دنیا میں حقیقی شراکتی جمہوریت کا بڑا دشمن ہے۔نوم چومسکی لکھتے ہیں کہ اکثر امتحان یا ٹیسٹ میں کامیابی کے لئے تربیت حاصل کی جاتی ہے جبکہ اِس کے لئے تخلیقی اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔ (پاکستان کا امتحانی نظام اِس قول کی روشنی میں نظرثانی چاہتا ہے۔) میرا خیال ہے کہ ذمہ داری استحقاق کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ (بدقسمتی سے پاکستان میں بجٹ اس کے مطابق تیار نہیں کیا جاتا۔ ہمارے رہنما (قومی فیصلہ ساز) خاطرخواہ ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ کوئی بھی ڈکٹیٹر امریکی میڈیا کی یکسانیت اور فرمانبرداری کی تعریف کرے گا۔ (کیا پاکستانی میڈیا اس سے مستثنیٰ ہے؟) تبدیلیاں اور ترقی جدوجہد سے ملتی ہیں۔ مزاحمت ان لوگوں کے لئے کارگر ثابت ہوتی ہے جو فطری طور پر ہیرو نہیں ہوتے۔نوم چومسکی نے کہا کہ بین الاقوامی معاملات مافیا کی طرح چلائے جاتے ہیں۔ گاڈ فادر نافرمانی قبول نہیں کرتا۔ (اُن کے اِس قول کی سچائی کو تحریک انصاف سے زیادہ بہتر کون سمجھ سکتا ہے) پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر معروف سائنسدان پیدا کئے ہیں لیکن سائنس پر مبنی تعلیمی نظام اور ثقافت تیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اشرف جہانگیر قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
رضاکارانہ تحریکوں میں شامل لاکھوں عام لوگوں کی طرف سے اٹھائے گئے ہزاروں خیالات سطحی رہتے ہیں۔ باہمی حمایت کے بغیر کوئی بھی خیال ”بڑا خیال“ نہیں بن سکتا۔ نوم چومسکی (پیدائش 7 دسمبر 1928ء) معروف امریکی مفکر ہیں جنہیں بابائے لسانیات بھی کہا جاتا ہے اور وہ ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اُن کے اقوال سے انتخاب پیش کرنے کا مقصد حالات پر تفکر کرنا ہے کیونکہ وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ دنیا میں وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جو دنیا پر غور کرتی ہیں اور سوچ کے ذریعے تبدیلی کا عمل بنا تعلیم مکمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں لیکن قومی حکمت عملیوں پر ماضی کی بجائے مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو اِس کے زیادہ مفید نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔