ڈیجیٹل عہد میں الیکٹرانکس آلات صبح جاگنے سے رات سونے تک مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں جسے ایک طرح کی ڈیجیٹل غلامی اور نگرانی سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ آلات نہایت ہی تیزی سے معمولات زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اُور اب ان کے بغیر عملی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ انفرادی اقدامات‘ کام کاج‘ ترجیحات اور ڈیجیٹل زندگی کے تقریباً ہر پہلو کی نگرانی کی جا رہی ہے اور ہمارے بارے میں معلومات کو ڈیٹا پوائنٹس میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ نگرانی سرچ ہسٹری‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز‘ ویب پیج ویوز جیسے ذرائع سے ذاتی ڈیٹا تک پھیلی ہوئی ہے جو ہماری ڈیجیٹل زندگی کے کم و بیش سبھی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔تکنیکی ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے‘ ایسا لگتا ہے کہ اعداد و شمار اب تیار ہونے سے کہیں زیادہ تیزی سے پروسیس کئے جارہے ہیں۔ درحقیقت‘ کچھ ٹیک کمپنیاں اس قدر ڈیٹا کی بھوکی ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال کرتے ہوئے تیار کردہ مصنوعی ڈیٹا کا استعمال کر رہی ہیں تاکہ خلأ کو پر کیا جا سکے اور حقیقی دنیا کے نمونوں کی نقل کی جا سکے۔ یہ ٹیک بھوک کئی عوامل کی وجہ سے ہے‘ جن میں ٹارگٹڈ اشتہارات اور اے آئی ماڈلز کو بہتر بنانا نمایاں ترجیح ہے۔ ٹارگٹیڈ اشتہارات ٹیک کمپنیوں کو اپنی آمدنی بڑھانے کے قابل بناتے ہیں۔ سال دوہزارتیئس میں صرف اشتہارات سے گوگل کی آمدنی 237.8 ارب ڈالر تھی جو اس کی مجموعی آمدنی 305.6 ارب ڈالر اہم حصہ ہے۔ اسی طرح میٹا (جسے عرف عام میں فیس بک کہا جاتا ہے) اِس کی آمدنی 134.9 ارب ڈالر رہی جو تاریخ کی بلند ترین آمدنی رہی اور اِس میں 98.5 فیصد آمدنی اشتہارات کے ذریعے حاصل کی گئی جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے آئی۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کا اپنے کاروباری ماڈلز کے لئے ’سرویلنس کیپیٹل ازم‘ پر انحصار ہے‘ یہاں تک کہ انفرادی پرائیویسی کی اہمیت کا بھی خاطرخواہ خیال نہیں رکھا جا رہا۔ بدقسمتی سے ٹارگٹیڈ ایڈورٹائزنگ کا مقصد مالی فوائد حاصل کرنا نہیں بلکہ رائے عامہ میں ہیرا پھیری کرنا اور سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔ ایک اور رجحان جس نے رفتار پکڑی ہے وہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دوڑ ہے۔ ’اے آئی‘ ماڈل اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے بڑی مقدار میں ڈیٹا پر انحصار کرتا ہے۔ سال دوہزاربیس کے بعد سے‘ اے آئی ماڈلز میں استعمال ہونے والے تربیتی اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مضامین‘ دستاویزات‘ پوسٹس‘ ویڈیوز‘ پوڈ کاسٹ وغیرہ پر مشتمل آن لائن مواد‘ تیزی سے بڑھتی ہوئی مصنوعی ذہانت کی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی بن گیا ہے۔ اِن رجحانات سے انٹرنیٹ صارفین کی آن لائن سرگرمیاں اور ذاتی ڈیٹا مارکیٹنگ پر مبنی مصنوعی ذہانت کی تربیت کے لئے خام مال بننے کے نتائج پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے۔ صارفین کے ڈیٹا کے بارے میں یہ ٹیک پلیٹ فارم کتنی اچھی طرح سے آگاہ ہیں اور صارفین کو ان کمپنیوں کی بنیادی رازداری کا لحاظ رکھتے ہوئے کوائف (ڈیٹا) کے استعمال کی پالیسیوں کے بارے میں کتنی کم آگاہی ہے اس حوالے سے صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہے۔ یہ عدم مساوات ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو انفرادی اقدامات کی پیش گوئی کرنے اور اس کے مطابق اثر انداز ہونے کا اختیار دیئے ہوئے ہے اور اس کا اطلاق بالخصوص سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہوتا ہے جہاں ذاتی ڈیٹا رضاکارانہ طور پر شیئر کیا جاتا ہے اور ڈیجیٹل سرگرمیوں کے نشانات باقی رہ جاتے ہیں۔ اس رجحان کا دائرہ کار صرف ٹارگٹیڈ مارکیٹنگ سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈیٹا جتنا زیادہ ذاتی نوعیت کا ہوتا ہے‘ ٹیکنالوجی کمپنیاں اُس سے اُتنا ہی زیادہ فائدہ اُٹھاتی ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ڈیجیٹل سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیاں صارفین کے کوائف کو آمدنی بڑھانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ ٹیک گیجٹس اور اس طرح کی ڈیٹا مائننگ جلد ختم نہیں ہونے جا رہی۔ یہ آن لائن صارفین پر منحصر ہے کہ وہ موجودہ عدم مساوات کم کرنے کے لئے کس قدر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک چیز جو ہم کر سکتے ہیں وہ ذاتی ڈیٹا کی قدر و اہمیت کو سمجھنا ہے‘ اور ذاتی ڈیٹا کمپنیوں کو دینے سے قبل احتیاط کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنیاں اس بیانیے کی تشہیر کر رہی ہیں کہ پرائیویسی کے خدشات کم کرنے کے لئے صارفین کے کوائف (ڈیٹا) کا استعمال ضروری ہے تاہم اگر ذاتی ڈیٹا فراہم ہی نہ کیا جائے تو کمپنیاں اسے حاصل کرنے کے لئے زیادہ محنت کریں گی لہٰذا ذاتی ڈیٹا کو آن لائن پوسٹ کرنے سے پہلے احتیاط سے کام لیتے ہوئے سوچنا ضروری ہے خاص طور پر ذاتی تصاویر اور حساس معلومات کسی بھی صورت ٹیکنالوجی کمپنیوں کے حوالے نہ کی جائیں۔ ضرب المثل ہے کہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ کے مساوی ہوتی ہے لیکن ذاتی تصاویر اس سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہیں اور ان کی اہمیت کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا اِس لئے مناسب غور و خوض اور شعوری آمادگی کے ساتھ ایسی تصاویر یا کوائف آن لائن پوسٹ کیا جانا چاہئے اس سلسلے میں رہنما اصول یہ ہے کہ جس قدر کم ڈیٹا آن لان پوسٹ کیا جائے اتنا ہی اہم ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آن لائن سرگرمی ختم ہوتے ہیں تمام اکاؤنٹس سے لاگ آف ہو جانا چاہئے۔ جب ہم مختلف آلات پر ہر وقت آن لائن رہتے ہیں تو اِس سے ہمارے کوائف کی چوری ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اِسی طرح انٹرنیٹ صارفین کو ای میلز کو بھی محتاط رہتے ہوئے دیکھنا چاہئے کیونکہ اِن میں ایمبیڈڈ ٹریکرز شامل ہوسکتے ہیں۔ مشکوک ای میلز اور لنکس کھولنے سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔ اِس سلسلے میں کام کاج اور ذاتی استعمال کی اِی میلز کو الگ رکھنا بہتر ہے۔ مزید برآں، الگ الگ براؤزر اور سرچ انجن کا استعمال اور پیچیدہ پاس ورڈ رکھنا بھی بہتر ہے۔ مندرجہ بالا اقدامات آسان ہیں اور ان پر عمل کیا جائے تو بہت سے آن لائن خطرات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آج کے دور میں سائنس فکشن کو سمارٹ فونز اور مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجیوں کے ذریعے حقیقت میں تبدیل ہوتے دیکھا جا رہا ہے لہٰذا ممکنہ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے فعال اقدامات ضروری ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شیذہ عارف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
ہتھیار برائے امن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک امریکہ تعلقات: ترقیاتی امکانات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی آلودگی اور ہمارے شہر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی سیاست اور دفاعی اخراجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام