بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی نوجوان افرادی قوت آبادی کے تناسب (ڈیموگرافک) پر حاوی ہے۔ لائق توجہ ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا قریب ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ آبادیاتی ڈھانچہ ممکنہ طور پر ”ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ“ یعنی تبدیلی کا مؤجب بن سکتا ہے اور اگر نوجوانوں کو خاطرخواہ توجہ دی جائے تو اِس سے نہ صرف پیداوار بلکہ قومی بچت‘ سرمایہ کاری اور معاشی ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں ممالک نے اپنی نوجوان آبادی کو خاطرخواہ توجہ دے کر مختلف محاذوں پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ لائق توجہ ہے کہ نوجوان آب و ہوا کی تبدیلی سے رونما ہونے والی آفات سے یکساں متاثر ہیں۔ تھامس پیکیٹی نے اپنی کتاب بعنوان ’مساوات کی مختصر تاریخ‘ میں آب و ہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والی عدم مساوات کی مختلف حالتوں کا جائزہ لیا ہے جس میں اِس کے اثرات کی جدید شکل بھی شامل ہے جو نوجوانوں کو متاثر کر رہی ہے۔ نظریاتی معاشیات سے سبق لیتے ہوئے‘ لائف سائیکل انکم مفروضہ پیش کرتا ہے کہ افراد اپنی بچت اور قرض لینے کے طریقوں کو ایڈجسٹ کرکے کس طرح مستحکم زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور جب نوجوانوں کے ابھرنے کی بات کی جاتی ہے تو اِس تناظر میں‘ نوجوانوں میں بچت کی شرح کم ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں اور آمدنی سے زیادہ اخراجات پر توجہ مرکوز کئے ہوتے ہیں۔ جوں جوں اُن کی عمر بڑھتی ہے‘ ان کی آمدنی اور بچت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ جو درمیانی عمر کے آس پاس عروج پر ہوتا ہے اور پھر بڑھاپے کے وقت اِس میں کمی آتی ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے اہم مضمرات رکھتی ہے۔ دوسری جانب ڈیموگرافک ٹرانزیشن تھیوری (نامی نظریہ) وضاحت کرتا ہے کہ معاشرہ اعلی شرح پیدائش اور اموات کے مقابلے کم شرح پیدائش کی وجہ سے بھی متاثر ہے۔ اس صورتحال میں ایک ایسا دور آتا ہے جب شرح پیدائش میں کمی ہوتی ہے اور جس سے عارضی عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس سے کام کرنے والی عمر کی آبادی کے مقابلے میں زیر کفالت افراد (بچوں اور بزرگوں) کی تعداد نسبتا کم ہوتی ہے۔ ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کے نام سے جانا جانے والا یہ دور معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے کیونکہ بصورت دیگر انحصار کرنے والی آبادیوں پر خرچ ہونے والے وسائل کو تعلیم‘ بنیادی ڈھانچے اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی طرف موڑا جاسکتا ہے جو معاشی ترقی کو فروغ دیتے ہیں تاہم ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کسی بھی قسم کی ضمانت نہیں دیتا اور اِس کے نتائج کئی عوامل پر منحصر ہوتے ہیں جس میں بشمول افرادی قوت سے معاشی ترقی کی صلاحیت‘ تعلیم اور تربیت کا معیار‘ ملازمت کے مواقع اور ملک کے مجموعی معاشی حالات میں بہتری۔ اِس کے علاؤہ‘ موسمیاتی تبدیلی جیسے بیرونی عوامل آبادیاتی منافع کے ممکنہ فوائد کو نمایاں طور پر متاثر کرسکتے ہیں اور یہ ممکنہ طور پر ترقی کی رفتار کم کرنے کے علاؤہ معاشی تباہی بھی لا سکتے ہیں۔پاکستان‘ اپنی نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی کے ساتھ‘ موسمیاتی تبدیلی کی آفات کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔ حالیہ چند برس کے دوران ملک میں سیلاب‘ خشک سالی اور ہیٹ ویو سمیت شدید موسمی واقعات کی تعداد اور شدت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے‘ جس نے اس کی معیشت‘ بنیادی ڈھانچے اور آبادی پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔ ان آفات کے نتیجے میں نہ صرف فوری طور پر انسانی اور معاشی نقصانات ہوئے ہیں بلکہ ملک کی معاشی ترقی پر بھی طویل مدتی اثرات مرتب دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کے اقتصادی سروے برائے سال دوہزاربائیس میں قومی بچت کی شرح گیارہ اعشاریہ ایک فیصد بتائی گئی ہے جو خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 374 ارب ڈالر بنتی ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں کل بچت تقریباً ساڑھے اکتالیس ارب ڈالر کے مساوی ہے۔ اس کے بالکل برعکس ورلڈ بینک کے اندازوں میں کہا گیا ہے کہ سال دوہزاربائیس کے سیلاب کے معاشی اثرات یہ رہے کہ اِس سے قومی خزانے کو تقریباً تیس ارب ڈالر کے مساوی نقصان ہوا۔ یہ نقصان پاکستان کی قومی بچت کا 72فیصد ہے‘ جو ملک کے مالیاتی استحکام اور ترقی کے امکانات پر قدرتی آفات کے سنگین معاشی اثرات کی نشاندہی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی آفات نوجوانوں کی بچت کو متاثر کر رہی ہے کیونکہ روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں۔ سیلاب اور خشک سالی جیسی آفات زرعی پیداوار کو متاثر کئے ہوئے جو پاکستان میں بہت سے نوجوانوں کے لئے روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ مزید برآں‘ بنیادی ڈھانچے کی تباہی نوجوانوں کو درپیش معاشی چیلنجوں کو مزید بڑھا رہی ہے‘ جس کے نتیجے میں بچت کی شرح کم ہے اور قرضوں پر انحصار میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کی آفات نوجوانوں کی تعلیم اور ہنر مندی کی ترقی کو بھی متاثر کر رہی ہے جس سے ان کا مستقبل غیریقینی کا شکار ہے۔ اِن کی بچت اور سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت مزید محدود ہوئی ہے۔ تعلیمی نظام میں خلل پڑا ہے۔سکولوں اور دیگر تعلیمی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے اور آبادیوں کی نقل مکانی نوجوانوں کی انسانی سرمائے کی ترقی پر دیرپا اثرات مرتب کر سکتی ہے‘ جس سے مستقبل کی معیشت میں بامعنی کردار ادا کرنے کی صلاحیت کم یا متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور بین النسل آمدنی میں عدم مساوات کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پالیسی سازوں کو قابل عمل پالیسی سفارشات کو ترجیح دینی چاہئے اور اِس سلسلے میں سب سے پہلے‘ نیشنل کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خالد ولید۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
جس کا ذکر ”نیشنل کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017ء“ میں کیا گیا ہے۔ دوسرا‘ قومی تعلیمی نصاب پر نظر ثانی کی جائے تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی انٹرپرینیورشپ اور عملی مہارتوں کی تربیت‘ خاص طور پر قابل تجدید توانائی‘ پانی کے انتظام اور آفات کی تیاری سے متعلق اسباق تعلیم میں شامل کئے جا سکیں۔ تیسرا‘ بچت اور سرمایہ کاری کی عادات کو فروغ دیا جائے۔ نوجوانوں میں بچت کی حوصلہ افزائی کے لئے جدید مالیاتی مصنوعات متعارف کروائی جائیں اِس سلسلے میں مائیکرو انشورنس معاشی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے اہم ہوگی۔ پائیدار زرعی ترقی کے لئے کسانوں کی تربیت‘ درست کاشتکاری اور تحفظ زراعت جیسے اقدامات ضروری ہیں۔ جنگلات اور نامیاتی کاشتکاری جیسے زرعی ماحولیاتی طریقوں کو فروغ دینے سے ماحولیاتی نظام کے تحفظ میں اضافہ ہوگا اس کے لئے ایک جامع بین النسل پالیسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے جو طویل مدتی منصوبہ بندی کرے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو اِس سے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اعتماد اور اُنہیں درپیش عدم مساوات کو بڑی حد تک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔