برطانیہ کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے جس کے ساتھ ہی برطانوی رائے دہندگان نے چودہ سالہ طویل کنزرویٹو حکمرانی کا خاتمہ کر دیا ہے اور حکمراں کنزرویٹو پارٹی کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر برطانیہ کے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ لیبر اور لبرل ڈیموکریٹس اس انتخابات کے حقیقی فاتح ہیں جبکہ کنزرویٹو اور سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) حقیقی طور پر ہارنے والی ہیں۔ کنزرویٹو اور ایس این پی دونوں کی حمایت میں زوال نے لیبر پارٹی کی اس بڑی فتح کی راہ ہموار کی۔ کنزرویٹو پارٹی کے خاتمے میں معیشت‘ امیگریشن اور تنازعہ فلسطین جیسے مسائل نے کلیدی کردار ادا کیا۔ رائے دہندگان کی تعداد ساٹھ فیصد سے کم رہی۔ یہ 1885ء کے بعد سے دوسرا سب سے کم ٹرن آؤٹ ہے۔ سال دوہزاراکیس کے بعد سے ٹرن آؤٹ میں کمی آئی ہے۔ انیس سو پچاس سے انیس سو نوے میں اوسط ٹرن آؤٹ تقریبا 80فیصد تھا۔ کم ٹرن آؤٹ کا مطلب ہے کہ بہت سے لوگوں کا سیاسی قیادت پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بہت سے برطانوی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی۔ رائے دہندگان کے لئے اپنے معاشی پروگراموں اور منشور کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مرکزی دھارے کی تمام جماعتوں نے نیو لبرل
فری مارکیٹ کے نظریئے کو اپنا لیا ہے۔ روایتی دائیں بازو کی سرمایہ دارانہ کنزرویٹو پارٹی اور سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے درمیان تعلیم‘ امیگریشن‘ ہاؤسنگ وغیرہ جیسے بہت سے سماجی مسائل پر اختلافات اب بھی موجود ہیں لیکن جب معیشت کی بات آتی ہے‘ تو شاید ہی کوئی ہو۔ اس صورتحال نے بہت سے رائے دہندگان کو مایوس کر دیا ہے۔ کام کرنے والے اور نوجوان نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس)‘ رہائش کے بحران‘ مہنگی اعلیٰ تعلیم‘ گرتی ہوئی آمدنی اور باعزت ملازمتوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔ کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ان مسائل کو حقیقی معنوں میں حل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مثال کے طور پر لیبر پارٹی نے ہاؤسنگ اور این ایچ ایس کے بحرانوں کو حل کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی واضح پروگرام اور حکمت عملی پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لیبر پارٹی نے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ 650 کی آبادی والے ایوان میں لیبر پارٹی نے 412 نشستیں حاصل کی ہیں جو حکومت بنانے کی ضرورت سے زیادہ ہیں۔ جہاں تک نشستوں کا تعلق ہے تو لیبر پارٹی کے لئے یہ دوسرا بہترین نتیجہ ہے۔ 1997ء میں ٹونی بلیئر نے لیبر پارٹی کی قیادت کی اور 418 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لیبر پارٹی نے اپنی نشستوں میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے لیکن جب مقبول ووٹوں کی بات آتی ہے تو پارٹی کو بہت کم فائدہ ہوا ہے۔ لیبر پارٹی کی نشستیں 201 سے بڑھ کر 412 ہو گئیں لیکن اس کا ووٹ شیئر دو فیصد سے بھی کم بڑھ کر 34 فیصد ہو گیا ہے۔ لیبر پارٹی نے چونتیس فیصد مقبول ووٹ حاصل کئے لیکن تریسٹھ فیصد نشستیں حاصل کیں۔ کنزرویٹو پارٹی کا ووٹ شیئر چوالیس فیصد سے کم ہو کر صرف چوبیس فیصد رہ گیا ہے جو بیس فیصد کمی ہے۔ یہ واضح ہے کہ لیبر پارٹی کی نشستوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ اس کی عوامی حمایت میں اضافے کا نتیجہ نہیں لیبر نے اپنی عوامی حمایت میں بڑے پیمانے پر اضافہ کئے بغیر کامیابیاں حاصل کیں۔ لیبر نے مڈلینڈز‘ شمال اور جنوب میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ لبرل ڈیموکریٹس نے بنیادی طور پر جنوب میں کامیابی حاصل کی۔ کنزرویٹو پارٹی نے جنوبی اور مڈلینڈز میں زیادہ تر نشستیں کھو دیں۔ مجموعی طور پر کنزرویٹو پارٹی نے 251 نشستیں کھو دیں جو انہوں نے گزشتہ انتخابات میں جیتی تھیں۔ یہ کنزرویٹوز کے لئے بدترین نتائج میں سے ایک ہے اور وہ اس افسوسناک نتائج کے لئے صرف خود کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ کنزرویٹو حکومت اپنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف عام لوگوں بلکہ متوسط طبقے کو بھی الگ تھلگ کر دیتی
ہے۔ افراط زر‘ معاشی بحران‘ کفایت شعاری اور سماجی اخراجات میں کٹوتی‘ گرتے ہوئے معیار زندگی‘ امیگریشن اور فلسطین پالیسی نے کنزرویٹو پارٹی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔ گزشتہ انتخابات میں بہت سے رائے دہندگان نے لیبر پارٹی پر دیگر کو ترجیح دی‘ یہ سوچ کر کہ پارٹی معیشت کو ٹھیک کرے گی اور بے روزگاری‘ افراط زر‘ بلند شرح سود اور غربت جیسے مسائل کو حل کرے گی لیکن کنزرویٹو حکومت محنت کشوں‘ پنشنرز اور نوجوانوں کے خدشات دور کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس نے بھی ان انتخابات میں 71نشستیں جیت کر بڑی کامیابی حاصل کی۔ پچھلے انتخابات میں انہوں نے صرف 15نشستیں جیتی تھیں۔ ایس این پی نے 10 نشستیں حاصل کیں جبکہ چھوٹی جماعتوں نے شمالی آئرلینڈ اور ویلز سے بھی کچھ نشستیں حاصل کیں۔لیبر پارٹی سے باہر بائیں بازو بڑی کامیابیاں حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جارج گیلووے کی قیادت میں ورکرز پارٹی ایک بھی نشست جیتنے میں ناکام رہی۔ پارٹی نے مجموعی طور پر دو لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے لیکن ایک بھی نشست حاصل نہیں کی۔ آزاد بائیں بازو کے لئے واحد اچھی خبر سابق لیبر لیڈر جیریمی کوربن کی جیت ہے۔ گرین پارٹی نے چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور سات فیصد ووٹ حاصل کئے لیکن صرف ایک فیصد نشستیں حاصل کیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر خالد بھٹی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)