اعدادوشمار (ڈیٹا) برائے ترقی

دنیا بھر میں مستحکم معیشتیں وہی ہیں جو دستاویزی ہیں۔ پاکستان میں معیشت کو دستاویزی بنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ثبوت پر مبنی پالیسی سازی عملی طور پر یہاں موجود نہیں جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ مستحکم اقتصادی ترقی کے لئے‘ اقتصادی اور پالیسی فیصلہ سازی کو دستیاب اعداد و شمار سے حاصل ہونے والے قابل اعتماد شواہد پر انحصار کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں پی آئی ڈی ای کی جانب سے منعقد کی جانے والی ایک بحث میں دلیل دی گئی کہ ”ڈیٹا (صارفین سے متعلق اعدادوشمار)“ کی بنیاد پر معیشت کو دستاویزی بنایا جائے۔ یہ مؤقف منطقی ہے کیونکہ اعداد و شمار کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ اعداد و شمار (یعنی ڈیٹا) کا جامع استعمال بالآخر موثر اُور زیادہ سے زیادہ استعمال ٹھوس فیصلہ سازی کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ عام طور پر‘ سرکاری محکمے صرف تعلیم‘ بنیادی سہولیاتی ڈھانچے‘ صحت‘ سلامتی اُور دیگر شعبوں سے متعلق اعدادوشمار جمع کرتے ہیں اُور اُن کا استعمال کرتے ہیں لیکن اگر اسے معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جائے تو خاطرخواہ مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پالیسی سازی اور کارکردگی کے جائزے کے لئے ڈیٹا کی جامعیت اُور دستیابی احتساب کے عمل کو بھی یقینی بناتی ہے‘ جس سے نظام کی شفافیت (بہتر طرز حکمرانی) قائم ہوسکتی ہے اگرچہ سب جانتے ہیں اعداد و شمار کی اہمیت کیا ہے اُور اِس پر مبنی فیصلہ سازی دستاویزی عمل کو کس قدر شفاف بھی بناتی ہے لیکن پاکستان میں اِس حوالے سے بہت کم ہو رہا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار بھی نہیں ہو پا رہیں۔ قابل اعتماد اعداد و شمار کی دستیابی اچھی پالیسی سازی کا آغاز بن سکتی ہے لیکن یہ اپنے آپ میں اختتام نہیں ہوتی بلکہ یہ پالیسی کے مقاصد کو مؤثر طریقے سے حاصل کرنے کے لئے نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کی عدم موجودگی میں کی جانے والی منصوبہ بندی ہمیشہ ناکافی رہتی ہے اُور یہ قومی ترقی میں بہترین کارکردگی کے حصول میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔اعداد و شمار کی دستیابی پاکستان میں معاشی استحکام لانے کے لئے کس طرح سمت متعین کر سکتی ہے اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صحت مند معاشی اور پالیسی فیصلہ سازی کے لئے ڈیٹا کی دستیابی یقینی بنائی جانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر‘ اعداد و شمار ضرورت کی درست نشاندہی کرنے کے لئے طلب اور رسد کے مابین مطابقت کی نشاندہی (شناخت کرنے) میں مددگار (معاون) ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح مردم شماری کے اعداد و شمار مختص بجٹ کے تعین میں مدد کرتے ہیں۔ ملازمت کا کوٹہ اور قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد صوبوں کی آبادی کے حجم کے متناسب ہے۔ ڈیموگرافک پروفائلنگ بہت سے شعبوں میں عوامی سرمایہ کاری کے فیصلوں کے بارے میں اچھی پالیسی سازی میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر‘ مزید سرمایہ کاری کی ضرورت کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔ شفافیت‘ احتساب اور گڈ گورننس کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے ڈیجیٹل ڈیٹا کی دستیابی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لئے نتائج کو مؤثر انداز میں پروان چڑھانے کا نقطہئ آغاز ثابت ہو سکتا ہے اُور اِس سے بدعنوانی کے امکانات بھی کم ہوں گے تاہم ضروری ہوگا کہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے اسٹیک ہولڈرز کو جوابدہ بنایا جائے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اس عمل اور اس کی تاثیر کا جائزہ لینے کے لئے ثبوتوں کی مدد سے پالیسی میں کچھ بینچ مارک شامل کئے جائیں لیکن تشویشناک صورتحال نتائج کے فریم ورک کی عدم موجودگی یا عدم دستیابی ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ نتائج کا ایک فریم ورک تشکیل دیا جائے جس میں صحت و تعلیم وغیرہ کے شعبوں میں عوامی طور پر مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کے نتائج کی پیمائش کی جا سکے اُور اِس میں شناخت شدہ پیرامیٹرز شامل ہوں۔ ثبوت پر مبنی عوامی پالیسی کے لئے اعداد و شمار کا استعمال سرکاری اور نجی شعبوں میں شاذ و نادر ہوتا دیکھا گیا ہے۔ عام طور پر‘ اعداد و شمار کو سرکاری شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت کا جواز پیش کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اُور سرکاری ادارے اپنے جاری اور مکمل منصوبوں کی کارکردگی کے بارے میں اعداد و شمار فراہم کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں کرپشن‘ اقربا پروری اور ذاتی مفادات جیسے عوامل اُور راز افشا ہونے کا خوف ہوتا ہے۔ اِس کے علاؤہ اداروں میں مداخلت بھی ہوتی ہے اُور اِس قسم کے رویئے قومی اداروں کو کمزور کرنے کے لئے علاؤہ انہیں بدعنوان اور نااہل بھی بناتے ہیں جو کہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ اس موقع پر‘ تعلیمی اداروں اور محققین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بہتری کے لئے مروجہ پالیسیوں کی جانچ پڑتال کے لئے اعداد و شمار کی طرف متوجہ ہوں۔ ہر شعبے سے متعلق زیادہ سے زیادہ اعدادوشمار جمع اُور تلاش کئے جائیں۔ اعدادوشمار بہت سی مشکلات اُور پیچیدگیوں کا حل ثابت ہو سکتے ہیں اِس لئے پالیسی سازوں کو شفافیت کے فروغ دینے کے لئے تعمیری رائے اپنانی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر انجیلا خرم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)