مصنوعی ذہانت اور مستقبل؟

امریکی صحافی فرید ذکریا اپنی کتاب ”ایج آف ریوولوشنز (عہد ِانقلابات)“ میں لکھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور معاشی تبدیلیوں کی رفتار سیاست پر اس طرح اثر انداز ہو رہی ہے کہ انسانوں میں بے چینی اور خوف پیدا ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ سے وہ پرانی روایات کو اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ مذہبی نظریات اور فاشزم جیسے عظیم بیانیے‘ کہ جنہیں مابعد جدیدیت نے گرہن لگا دیا تھا‘ اب پھر سے واپس آ رہے ہیں۔ زمین پر زندگی نے ایک ارب سال میں جو فاصلہ طے کیا‘ ڈائنوسارز اور جراثیموں کے ارتقا کے ساتھ‘ مستقبل میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے یہی سفر صرف دس برس یا اِس سے بھی کم عرصے میں طے کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی‘ گلوبلائزیشن اور میڈیکل سائنس کے تیز رفتاری سے سفر کرنے کے ساتھ‘ لوگ مزید خوف زدہ ہو رہے ہیں۔ سب سے نمایاں خوف مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ کے ذریعہ پیدا ہونے والی تکنیکی ترقی کے بوجھ کا ہے جس کے اثرات انسانوں کی شناخت اور ثقافت پر مرتب ہو رہے ہیں۔ مصنف یوول نوح حریری کے مطابق‘ اِس سیارے (کرہئ ارض) پر زندگی کی شکلیں جو قدرتی انتخاب اور نامیاتی کیمیا کے قوانین پر چلتی تھیں‘ اب سائنس کی مدد سے فطرت کے مطابق نہیں بلکہ کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے ذہین ڈیزائن سے تبدیل ہونے لگی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ انسان اربوں سال کے ارتقاء کے بعد پہلی غیر نامیاتی زندگی کی شکل تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ مصنوعی ذہانت اور بائیو سائنس کا امتزاج تباہی کے علاؤہ انسانی ارتقا اور انسانی وجود کے پرسرار پہلوؤں کو بھی سلجھا سکتا ہے۔ حریری کے مطابق مستقبل قریب میں سلیکون ویلی جیسے علاقے بہت زیادہ امیر ہو جائیں گے جبکہ دستی مزدوری پر منحصر معیشتیں تباہ ہو سکتی ہیں۔ خود مختار روبوٹک طور پر چلائے جانے والے دفاعی نظام‘ قومی  سلامتی اور اخلاقی الجھنوں جیسے مسائل کا حل پیش کر سکتا ہے جن سے متعلق عالمی حل کی ضرورت ہے چونکہ مستقبل میں کسی ایک ملک کے لئے ٹیکنالوجی پر اجارہ داری قائم کرنا مشکل ہوگا‘ اس لئے ’ہائی رسک اور ہائی گین ٹیکنالوجیز‘ متعارف کرانے کے لئے دوڑ کا آغاز ہو چکا ہے اور ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں بلکہ حریفوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹیکنالوجیز میں برتری کے حصول میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں نتیجتاً دنیا کو ابھرتی ہوئی سلامتی کی الجھنوں سے نمٹنے کے لئے عالمی حل اور کائناتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے تاہم‘ جو کچھ سامنے آ رہا ہے‘ وہ بالکل زمینی ضروریات کے برعکس ہے۔ اپنی ایجنسی اور شناخت کھونے کے خوف کا سامنا کرتے ہوئے‘ لوگوں نے قبائلی طرز عمل اور نسلی‘ مذہبی شناختوں کا سہارا بطور پناہ گاہیں اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اِس ماحول میں خون‘ رنگ‘ نسل‘ مذہب اور ثقافت کے رشتوں کو عالمی اور انسانی نقطہئ نظر کی بنیاد پر فروغ دیا جاتا ہے۔ پاپولسٹ اور مفکرین شناخت کے بحران‘ معاشی محرومیوں اور بیرونی خطرات کے نعرے لگا کر اس طرح کے خوف اور خدشات کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو اکٹھا کیا جا سکے۔تارکین وطن کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنماؤں کی جانب سے امریکی ملازمتوں اور ثقافت کے لئے سنگین خطرے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یورپ میں یہی کردار مختلف ناموں سے نظر آتے ہیں جیسا کہ ہنگری میں وکٹر اوربن‘ اٹلی میں وزیر اعظم میلونی‘ فرانس میں میرین لی پین اور نیدرلینڈز میں گیرٹ وائلڈرز سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک جیسا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایشیا میں بھارتی وزیر اعظم مودی اور فلپائن کے ڈوٹرٹے پاپولزم کی مثالیں بھی اِسی ضمن میں پیش کی جا رہی ہیں۔ یوول حریری کے مطابق‘ تکنیکی ترقی کی وجہ سے جغرافیائی سیاست میں ہونے والی پیش رفت سیاست کی گلوبلائزیشن کا باعث بنتی ہے‘ جس کے نتیجے میں‘ معاشیات کی گلوبلائزیشن کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے بجائے دنیا جو دیکھ رہی ہے وہ ایک جغرافیائی سیاسی مسابقت ہے جو سیاست کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے اور آزاد تجارت و ٹیکنالوجی کی منتقلی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔متحارب معاشی طاقتوں کے اُبھرنے سے خوفزدہ ذہنیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی سرد جنگیں عالمی نظام میں پاپولزم سے متاثر جغرافیائی سیاسی تقسیم کا مظہر ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں اپنائی جانے والی تنہائی پسندانہ پالیسیاں ممالک میں داخلی سطح پر پسپائی کی ترغیب دیتی ہیں جس میں ”میرے قبیلے‘ میرے مذہب اور میرے عقیدے“ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے پھیلائے جانے والے خوف کے نتیجے میں نفرت کی سیاست اور اخراج کی معاشیات کو فروغ ملا ہے جس کے نتیجے میں ایک قسم کی منفی توانائی پیدا ہوئی ہے جو عالمی نظام کے دروازے کھول سکتی ہے اور جس سے افراتفری کے انقلابات جنم لے سکتے ہیں جو عالمی امن و امان کے لئے سنگین خطرات ہیں۔ مواصلات کے میدان میں‘ ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا انقلاب کو جنم دیا ہے جو اپنے ساتھ مسائل کا ایک نیا مجموعہ لے کر آیا ہے۔ جوناتھن ہیڈٹ اپنی کتاب ”دی کوڈنگ آف امریکن مائنڈ“ میں لکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا انقلاب نے اپنی تفرقہ انگیز نوعیت کی وجہ سے انسانی ذہنی صحت‘ اعلیٰ تعلیم اور جمہوریت کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے تقسیم شدہ سوچ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس ”انقلاب کے دور“ کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاپولزم اور سماجی کشمکش کے سفر کو ناکام بنانے کے لئے خلا کو پُر کیا جائے۔ زیادہ تر عالمی اسکالرز معاشی عدم مساوات ختم کرنے اور لوگوں کے لئے تعلیم تک بہتر رسائی کی سفارش کر رہے ہیں تاکہ دنیا کو آنے والے ممکنہ کئی ایک انقلابات کے تباہ کن اثرات سے بچایا جاسکے۔ دولت اور وسائل کی دوبارہ اور منصفانہ تقسیم‘ تعلیم تک مساوی رسائی‘ تجارتی رکاوٹیں دور کرنا‘ منصفانہ امیگریشن قوانین کا اطلاق اور جغرافیائی سیاسی مسابقت کے بجائے معاشی انحصار کو اپنانا لوگوں کو تباہ کن سوچ رکھنے والوں سے دور (الگ) کر سکتا ہے جو انقلابات کا وعدہ کرتے ہیں لیکن درحقیقت انقلاب کی آڑ میں تنازعات پیدا کر رہے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر راشد ولی جنجوعہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)