قومی ہیروز کی قد

پاکستان کرکٹ ٹیم کو حال ہی میں بھارت سے شکست ہوئی ہے جس کے بعد وہ ٹی ٹوئنٹی عالمی مقابلوں سے بھی قبل از وقت باہر ہوئی اور قومی کرکٹ ٹیم کی اِس مایوس کن کارکردگی پر پوری قوم  نے دکھ محسوس کیا اور یہی وجہ تھی کہ سخت تنقید بھی کی گئی جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ قومی سطح پر بحران در بحران کے موجودہ دور میں جب سیاسی پولرائزیشن عروج پر ہے اور معاشی استحکام بھی ابھی ساحل پر نہیں پہنچا تو ہمیں کچھ شعبوں میں کامیابیوں کی ضرورت ہے جو کراچی سے خیبر تک عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال کر سکے‘ یقینا پاکستان کو ایک ایسے ایتھلیٹ کی اشد ضرورت ہے جو کھیل کا دباؤ برداشت کر سکے اور قوم کی اُمیدوں پر پورا اُترے۔ یادش بخیر پاکستان کا کھیلوں کے شعبے میں شاندار ماضی رہا ہے‘کھیلوں میں کسی قوم کی کامیابی بہت معنی خیز ہوتی ہے۔ معروف رہنما نیلسن منڈیلا نے 1995ء میں جنوبی افریقہ کے لئے رگبی ورلڈ کپ کو تباہ حال پایا جبکہ اُنہوں نے ایک پولرائزڈ ملک میں کھیل کو سیاسی مصالحت کی قوت کے طور پر استعمال کیا تھا۔ یونس خان کی قیادت میں سال دوہزارنو کے ورلڈ کپ کی جیت نے ایک ایسی قوم کو شاندار خوشی کا لمحہ دیا جو دہشت گرد حملوں سے نبرد آزما تھی۔ آج ملک کو بڑے ٹورنامنٹ جیتنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے لیکن جہاں ہماری دعائیں اور نیک خواہشات بڑے بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں حصہ لینے والے ہمارے قومی ایتھلیٹس کے لئے ہیں‘ خاص طور پر جیولین تھرور ارشد ندیم کے لئے‘ جو آئندہ پیرس اولمپکس میں حصہ لیں گے‘ یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ کیا ہماری قوم قومی کھلاڑیوں کو مناسب احترام دیتی ہے جس کے وہ مستحق ہیں؟دنیا بھر میں مقبول کھیلوں کے اعلیٰ درجے کے ایتھلیٹس کو ”کھیل کے لیجنڈز“ کے طور پر ایک خاص مقام پر رکھا جاتا ہے۔ انہیں شہرت دلانے کے لئے سراہا جاتا ہے اور ان کی کامیابیاں قومی فخر سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ایسے ایتھلیٹس موجود ہیں جنہوں نے ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد قومی پرچم لہرانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اولمپک چیمپیئن ہاکی ٹیم ہو‘ سکواش کے استاد ہوں یا اسپرنٹر‘ ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی ایتھلیٹس کبھی کچھ نہیں جیتتے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کثرت سے نہ ہو لیکن ایسا ضرور ہوتا ہے۔ تو پھر وہ جیت کے لمحات ہماری قومی یادوں میں کیوں نہیں ہیں؟ میں یہ سوال ایک ایسے سیاست دان کی حیثیت سے پوچھ رہا ہوں جو معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناامیدی کو ملک کا سب سے بڑا چیلنج سمجھتا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاست پاکستان کو اپنے کھلاڑیوں کی بہتر مدد کرنے اور نجی شعبے کو ساتھ لانے کی ضرورت ہے اگر مالی رکاوٹیں انہیں مطلوبہ امداد فراہم کرنے سے روکتی ہیں۔ یہ وقت سوال پوچھنے کا ہے اور پاکستان کے عوام کو یہ سوال بھی لازماً پوچھنا چاہئے کہ کیا ہم اپنے ہیروز کی اسی طرح عزت کر رہے ہیں جس طرح ان کی عزت کی جانی چاہئے؟یونس خان نے سال دوہزارنو کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار سے زیادہ رنز بنا کر کھیل سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ وہ ایک باصلاحیت ایتھلیٹ ہیں جنہیں قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا لیکن شاید اس لئے کہ خان پی آر ایجنسیوں کے ذریعے خود کو اچھی طرح مارکیٹ نہیں کرتے تو قوم انہیں ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کے طور پر اعزاز نہیں دیتی جس نے قومی وقار حاصل کیا۔ کیا اس کے لئے ریاست کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہئے؟ یقینی طور پر نہیں۔ یاد رہے کہ چند ہفتے قبل ٹوئٹر پر شاہد خان آفریدی کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ برطانیہ میں دو صیہونیوں کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔ ان افراد نے اس تصویر کا استعمال یہ پیغام دینے کے لئے کیا کہ آفریدی اسرائیل اور صیہونیت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے قومی ہیرو جس نے ہمیں خوشی کے ان گنت لمحات دیئے انہیں ڈیجیٹل اسپیس پر ٹرولز کرنے کے علاؤہ اس حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ آفریدی کو یہ وضاحت دینا پڑی کہ اس کا صیہونیوں اور اسرائیلی ریاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ شائقین میں شامل بہت سے دیگر لوگوں کی طرح دو افراد نے ایک تصویر اکٹھا بنانے کی درخواست کی اور ایک ایتھلیٹ کی حیثیت سے میں راضی ہو گیا تھا۔ ایک ایسا شخص‘ جو بلاشبہ ایک قومی ہیرو ہے اور اب ایک فلاحی شخصیت کے طور پر کام کر رہا ہے‘ کو ایک بے بنیاد الزام پر قوم کی جانب سے ٹرول تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ آفریدی کو کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک پاپولسٹ سیاسی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ہمارا سیاسی بیانیہ یہ ہے کہ ہم ایک قومی ہیرو کو بے بنیاد اور جھوٹے الزامات پر بس کے نیچے دھکیلنے کو تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے ہجوم کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ پاکستان بحران کا شکار ہے۔ یہ ایک من گھڑت بیان ہے جو ہم کئی دہائیوں سے سن رہے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں کا احترام کریں جنہوں نے ہمیں خوشی کے لمحات دیئے۔ سیاست قومی ہیروز سے بالاتر ہونی چاہئے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر طحہ خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 شاید اب وقت آگیا ہے کہ قانون ساز کم از کم ایوان میں اس بات پر بھی بحث کریں کہ ہمارے ملک کے اِن سفیروں (کھلاڑیوں) کے نام عزت و احترام سے لئے جائیں۔ یہ وہی سپوت ہیں جنہوں نے ملک و قوم کو وقتاً فوقتاً فخر کے سوا کچھ نہیں دیااور اِن سے بہتر کارکردگی کی اُمید رکھنی چاہئے۔