صدارتی انتخابات : ایران میں تبدیلی
جمہوری اسلامی ایران میں حالیہ صدارتی انتخابات میں اصلاح پسند رہنما مسعود پیشکیان کی کامیابی پر نظر ڈالتے ہوئے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ایران کی عوام نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ سال دوہزارتیرہ میں اصلاح پسند حسن روحانی اپنی پہلی مدت کے لئے منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے انتہائی ضروری معاشی بحالی اور سماجی و سیاسی نظام کی بہتری کا وعدہ کیا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جو ایران کے عوام چاہتے ہیں اور انہی اصلاحات کا مطالبہ مسلسل کیا جا رہا ہے۔ روحانی نے چار سال بعد دوسری مدت کے لئے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اندرونی اور بیرونی عوامل کے امتزاج کی وجہ سے انہوں نے جن عوامی توقعات کا بوجھ اپنے کندھوں پر رکھا وہ بڑی حد تک پوری نہیں ہوئیں۔ جب روحانی پہلی مدت کے لئے منتخب ہوئے تو اس وقت راقم الحروف تہران میں موجود تھا اور یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی کہ عوام نے اپنے پسندیدہ امیدوار کی فتح کا جشن منایا تھا۔اس سے بھی زیادہ اور خوشگوار حیرت یہ تھی کہ خواتین نے اپنے سروں سے چادریں (اسکارف) اتار دی تھیں‘ جو حکومت کے سخت گیر اسلامی اقدامات کے تحت انہیں لازماً پہننا پڑتا ہے۔ میں نے پہلے یا بعد میں کبھی بھی ایرانی خواتین کو عوامی مقامات پر ننگے سروں کے ساتھ اس قدر تعداد میں نہیں دیکھا تھا۔ یہ منظر ہر لحاظ سے‘ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ خواتین روحانی کو اپنی آزادی کے لئے موزوں سمجھتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔درحقیقت اگر ہم ایرانی صدارتی انتخابات کا طویل جائزہ لیں تو ہمیں اصلاح پسند اور سخت گیر یا اسٹیبلشمنٹ کے حامی امیدواروں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ 1997ءمیں اصلاح پسند خاتمی اس وقت حیران رہ گئے جب وہ صدر منتخب ہوئے اور 2005ءتک لگاتار دو مرتبہ اس عہدے پر فائز رہے۔ اظہار رائے کی آزادی‘ زیادہ جامع جمہوریت اور مارکیٹ پر مبنی معاشی اصلاحات بھی ان کی انتخابی مہم میں نمایاں طور پر سامنے آئیں تھیں۔ ایران میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہے۔2018ءکے اوائل میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور قیمتوں کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے جو تیزی سے ملک کے دیگر حصوں میں پھیل گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان مظاہروں نے مشتعل لوگوں کو سیاسی نظام پر حملہ کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ ایران کی خارجہ پالیسی‘ جس میں حکومت کو عوامی وسائل کا ایک بڑا حصہ خطے میں دوست حکومتوں اور تحریکوں کی حمایت کے لئے استعمال کرنے کا پابند کیا گیا ہے‘ تب اِس حکمت عملی کو بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن احتجاج اور مطالبات نے حکومت کو زیادہ متاثر نہیں کیا۔ سید ابراہیم رئیسی کی مدت کار اس وقت ختم ہوئی جب وہ گزشتہ مئی میں ایک ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ ایران میں اصلاح پسند‘ وقفے وقفے سے صدر کے عہدے پر رہنے کے باوجود‘ عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں ایران کے سیاسی نظام پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ایران میں طاقت کے دو قطب ہیں: ایک عوامی طور پر منتخب صدر اور ایک مجلس (مقننہ) پر مشتمل ہے۔ دوسرے قطب کی نمائندگی اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے جس کی صدارت سپریم لیڈر یا رہبر کرتے ہیں اور یہ ایک طرح کی کنٹرولڈ جمہوریت چاہتے ہیں۔ رہبر ایرانی سیاسی نظام میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ وہ انقلاب کے محافظ‘ آئین کا محافظ اور نظام کے مجموعی نگران ہیں اور تمام اہم معاملات میں‘ ان کی رائے حرف آخر ہوتی ہے۔ انقلاب کے بعد ایران نے سخت گیروں کے خلاف اصلاح پسندوں کی انتھک جدوجہد دیکھنے میں آ رہی ہے‘ خاص طور پر جب نئی نسل جمہوریت کی حمایت کرتی ہے تاہم‘ سخت گیر اپنی زیادہ طاقت اور اثر و رسوخ‘ خاص طور پر پاسداران انقلاب کی وجہ سے حاوی رہتے ہیں۔دریں اثنا‘ ایران کی معیشت مشکل دور سے گزر رہی ہے سال دوہزارسترہ میں معیشت میں صرف دو اعشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا مغرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے علاو¿ہ ملک کو اندرونی تضادات اور تنازعات پر قابو پانے کی ضرورت ہے الیکشن جیتنے کے بعد پیشکیان نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی جیت ملک کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کرے گی۔ کیا پیشکیان ملک کے اندر‘ تبدیلی کی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان توازن برقرار رکھ پائیں گے؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسین ایچ زیدی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)