فرانس میں انتخابی عمل مکمل ہوا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرانسیسی رائے دہندگان نے ایک مخلوط پارلیمنٹ تشکیل دی ہے اور اگر تفصیلی بات کی جائے تو فرانسیسی رائے دہندگان نے تین اہم سیاسی اتحادوں کو منقسم مینڈیٹ دیا ہے۔ بائیں بازو کا اتحاد سب پر حاوی رہا لیکن یہ اب بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے کے لئے 289 نشستوں کی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی اور آنے والے دنوں میں یہ ایک بڑا امتحان ثابت ہوگا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ فرانس میں اکثریتی اور مستحکم حکومت کیسے تشکیل دی جائے؟ بائیں بازو اور لبرل دائیں بازو دونوں کے لئے انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی کی مدد سے حکومت بنانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ فرانس کے صدر میکرون نے اپنی پارٹی کی شرمناک شکست اور یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں نیشنل ریلی کی کامیابی کے بعد قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا تھا۔ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات میں اصل مقابلہ تین بلاکوں یا اتحادوں سے رہا۔ بائیں بازو کا اتحاد (نیو پاپولر فرنٹ) چار بڑی جماعتوں پر مشتمل ہے جس میں سوشلسٹ پارٹی‘ گرینز‘ کمیونسٹ پارٹی اور لا فرانس انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔ لبرل اور دائیں بازو کے اتحاد میکرون کی نشاۃ ثانیہ‘ ڈیموکریٹک موومنٹ‘ ہورائزن اور ریڈیکل پارٹی پر مشتمل ہے جبکہ انتہائی دائیں بازو کا اتحاد نیشنل ریلی‘ ری پبلکنز‘ ریکونکیٹ پارٹی اور لوٹے اوویر شامل ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ فرانس میں انتخابات تیس جون اور سات جولائی کے درمیان دو مراحل میں ہوئے۔ پہلے مرحلے میں 66.71 فیصد اور دوسرے مرحلے میں 66.63 فیصد رائے دہی ہوئی زیادہ ٹرن آؤٹ کی بنیادی وجہ فرانسیسی معاشرے میں سیاسی پولرائزیشن قرار دی جا رہی ہے۔ یہ تقسیم واضح طور پر انتہائی دائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو کے درمیان ہے۔ بائیں بازو کا اتحاد نیو پاپولر فرنٹ عوام کی توقعات پر پورا اترا اور دوسرے مرحلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے بڑے بلاک کے طور پر ابھرا۔ نیو پاپولر فرنٹ نے انتخابات میں 180 نشستیں حاصل کیں لیکن حکومت بنانے کے لئے 289 نشستوں کی ضرورت ہے۔ اس انتخابی نتیجے نے ان لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں کو راحت فراہم کی ہے جو انتہائی دائیں بازو کی ممکنہ فتح کے بارے میں فکرمند تھے۔ نوجوان اور تارکین وطن کی اکثریت نے بائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت کی تھی اور یہی وجہ رہی کہ گزشتہ کئی برس کے بعد بائیں بازو کے لئے یہ انتخابی ’بہترین‘ ثابت ہوا۔ اگر بائیں بازو اس انتخابات کا حقیقی فاتح ہے تو میکرون کی قیادت والا اتحاد اصل نقصان اٹھانے والا ہے۔ میکرون کی زیر قیادت اتحاد نے 159نشستیں حاصل کیں۔ پہلے مرحلے میں صرف 66 امیدواروں نے اپنے حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ لی پین اور جورڈن بارڈیلا کی قیادت میں انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی نے دیگر دو اتحادوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسے پہلے مرحلے میں 33 فیصد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ مقبول ووٹوں کا سب سے بڑا حصہ ملا۔ دوسرے مرحلے میں اس کے مقبول ووٹوں کا حصہ بھی تقریباً 37 فیصد بڑھ گیا۔ اس نے 142 نشستیں حاصل کیں اور پارلیمنٹ میں واحد سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھرکر سامنے آئی۔ یہ نیشنل ریلی کا بہترین نتیجہ ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اس نے 89 نشستیں حاصل کیں تھیں لہٰذا اِسے ہونے والا خالص فائدہ 53 نشستوں کا ہے تاہم نیشنل ریلی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے حالانکہ یہ اب بھی ایک طاقتور جماعت ہے‘انتہائی دائیں بازو کے مارچ کو روکنے کا واحد راستہ فرانس میں سماجی و اقتصادی حالات کو تبدیل کرنا ہے۔ بہت سے لوگ معاشی صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ نیو لبرل معاشی پالیسیوں نے روایتی سیاسی جماعتوں کو غیر مقبول بنا دیا ہے۔ فرانس میں نسل پرستی میں اضافہ ہو رہا ہے اور فرانس کی حکمران اشرافیہ کی طرف سے اسے روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری‘ غربت اور گرتے ہوئے معیار زندگی نے انتہائی دائیں بازو والے طبقے کو جنم دیا ہے جس کا سارا الزام تارکین وطن پر عائد کیا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کو انتہائی دائیں بازو کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک انقلابی اقتصادی پروگرام کے ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر خالد بھٹی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
ہتھیار برائے امن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک امریکہ تعلقات: ترقیاتی امکانات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی آلودگی اور ہمارے شہر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی سیاست اور دفاعی اخراجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام