کمبوڈین صدر ہن سین نے واٹس ایپ کے متبادل کے طور پر ملک میں بنائی گئی میسجنگ ایپلی کیشن کی حمایت کردی۔ ایپلی کیشن کے متعلق ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے حکومت ملک میں ہونے والی سیاسی گفتگو پر نظر رکھ سکے گی۔
سابق وزیر اعظم نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر لکھا ’کول ایپ غیر ملکیوں کے لیے ہماری معلومات میں مداخلت کرنا مشکل کر دے گی۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ یہ پہلا کمبوڈین پروگرام ہے اور یہ کمبوڈین سیکیورٹی دائرے میں استعمال کیا جائے گا۔ دیگر ممالک کے پاس ان کے اپنے مواصلات کے ذرائع ہیں، جیسے کہ چین کا وی چیٹ، ویتنام کا زالو، جنوبی کوریا کا کاکاؤ ٹاک اور روس کا ٹیلی گرام۔ لہٰذا کمبوڈیا میں ہماری اپنی پروڈکٹ ہے۔
دنیا کے طویل مدتی حکمرانوں میں سے ایک ہن سین نے کمبوڈیا پر تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ حکمرانی کی ہے۔ اگرچہ ان کے بڑے بیٹے ہن مینیٹ گزشتہ برس ان کی جگہ وزیر اعظم بنے لیکن حکمراں جماعت کی تمام تر طاقت ابھی بھی ان کے پاس ہے۔
کول ایپ کے بانی اور سی ای او لِم شیووتھا کا کہنا تھا کہ ایپ کو ڈیڑھ لاکھ بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے اور یہ صارفین کے ڈیٹا کو مانیٹر، اکٹھا یا ذخیرہ نہیں کر رہی۔ ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے ایپ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن استعمال کر رہی ہے۔