ترقیاتی سائنس

سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بہت سی دلچسپ پیش رفت تیزی سے ان ممالک کے منظر نامے کو تبدیل کر رہی ہے جو تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سی اختراعات صنعتی شعبے میں خلل ڈال رہی ہیں اور نئے کھلاڑیوں کو ابھرنے اور عالمی منڈیوں پر غلبہ حاصل کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ مثالوں سے واضح ہے کہ سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شعبوں میں سے ایک مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی اے آئی کا ہے)۔ اوپن اے آئی کے جی پی ٹی تھری اور جی پی ٹی فور جیسے ڈیپ لرننگ ماڈلز کی ترقی سے چلنے والی مصنوعی ذہانت نے ٹیکنالوجی کے ساتھ انسانی تال میل میں گویا انقلاب برپا کردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ (ایم ایل) کے سب سے اہم اثرات میں سے ایک صحت کے شعبے میں دیکھا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے تشخیصی آلات ڈاکٹروں کو ابتدائی مراحل میں بیماریوں کی شناخت کرنے میں زیادہ درستگی کے ساتھ مدد فراہم کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ اے آئی الگورتھم طبی تصاویر‘ جیسا کہ ایکس رے اور ایم آر آئی کا تجزیہ کرسکتی ہے اور یہ ایسی بیماریوں کا بھی علم لگا سکتی ہے جو انسانی معائنے میں آنکھوں سے اوجھل ہوں۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ادویات کی تیاری میں بھی مدد حاصل کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے نت نئی ادویات متعارف ہو رہی ہیں اور ادویات کی تیاری میں خرچ ہونے والی لاگت میں بھی نمایاں طور پر کمی آئی ہے۔ فنانس انڈسٹری میں‘ اے آئی اور ایم ایل کی وجہ سے مالیاتی اداروں کا کام کاج تبدیل ہو رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کوالگورتھم دھوکہ دہی کا پتہ لگانے‘ خطرے سے نمٹنے اور ذاتی مالیاتی خدمات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ روبو ایڈوائزرز‘ جو مالی مشورہ اور پورٹ فولیو مینجمنٹ فراہم کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں‘ آج کل زیادہ تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ وہ انفرادی خطرے کے پروفائلز اور مالیاتی اہداف کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی حکمت عملی تجویز کرتے ہیں اور یہ جدید مالیاتی منصوبہ بندی پر مبنی طرزتحقیق ہے۔ اس کے علاؤہ‘ اے آئی اور ایم ایل روزمرہ کے امور کی انجام دہی میں صارفین کی مدد کر رہے ہیں۔ ایمیزون کا الیکسا‘ ایپل کا سری اور گوگل کی جانب سے اسسٹنٹ متعارف کروائے گئے ہیں جو صارفین کی پسند و ناپسند یا ترجیحات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ مصنوعی ذہانت پر انحصار کرتے ہیں۔ روبوٹکس اور آٹومیشن کے متعلقہ شعبے میں گزشتہ پانچ سالوں میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے‘ جس نے مختلف صنعتوں کے کام کاج کو بڑی حد تک تبدیل کیا ہے۔ روبوٹک ٹیکنالوجی‘ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ میں جدت سے صنعتی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس سے مینوفیکچرنگ‘ لاجسٹکس‘ صحت کی دیکھ بھال اور دیگر شعبوں میں آٹومیشن ہو رہی ہے یعنی مشینیں خودکار طریقے سے پیداواری صلاحیت‘ حفاظت اور آپریشنل کارکردگی کو بہتر بنا رہی ہیں۔ مینوفیکچرنگ میں‘ روبوٹکس اور آٹومیشن سمارٹ فیکٹریوں کا تصور مقبول ہے جس میں مشینیں‘ روبوٹس اور سسٹم آپس میں جڑے ہوتے ہیں اور یہ مل کر پیداوار کے عمل کو بہتر بنانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مدد بلاتھکان کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک اور اہم ترقی فائیو جی ٹیکنالوجیز کی ہے۔ موبائل نیٹ ورکس کی یہ پانچویں جنریشن فور جی ایل ٹی ای کے مقابلے میں سو گنا تیز ہے۔ فائیو جی کے سب سے زیادہ متوقع اثرات میں سے ایک انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) ہے‘ جس کی مدد سے اربوں آلات کو ایک دوسرے سے منسلک کر کے کام لیا جا سکتا ہے اور اِس کے نتیجے میں سمارٹ گھر‘  سمارٹ شہر اور سمارٹ صنعتوں کو فروغ مل رہا ہے۔ خود کار گاڑیاں بنانے کی صنعتیں بھی اِسی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔  توانائی کے میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی ہو رہی ہے اور اگر گزشتہ پانچ برس کا جائزہ لیا جائے تو اِس میں نمایاں تیزی آئی ہے‘ جس کی وجہ شمسی‘ ہوا اور توانائی ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجیز میں پیش رفت ہے۔ فوٹو وولٹک سیلز‘ ونڈ ٹربائن ڈیزائن اور بیٹری سٹوریج میں جدت طرازی نے قابل تجدید توانائی کو زیادہ مؤثر بنا دیا ہے۔ سمارٹ گرڈز اور انرجی مینجمنٹ سسٹمز کا انضمام قابل تجدید توانائی کی بہتر تقسیم اور استعمال کو ممکن بنا رہے ہیں‘ جو موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے اور پائیدار توانائی کے مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہیں۔ اِسی طرح جینیاتی انجینئرنگ صحت اور زراعت کے شعبوں پر بھی مصنوعی ذہانت کا بہت بڑا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ جین ایڈیٹنگ کی صلاحیت جینیاتی بیماریوں کا علاج کرنے‘ بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے والی فصلیں بنانے اور یہاں تک کہ معدوم ہونے والی انواع و اقسام کو دوبارہ زندہ کرنے کو ممکن بنا رہی ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ کسی قوم کی سماجی و اقتصادی ترقی کا انحصار ہائی ٹیک مصنوعات کی تیاری اور اِن کی برآمدات کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ اس انتہائی اہم شعبے میں پاکستان بری طرح ناکام رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری برآمدات صرف پینتیس ارب ڈالر ہیں اور یہ بھی جمود کا شکار ہیں جبکہ پاکستان کے مقابلے کم آبادی اور رقبے کے لحاظ سے انتہائی چھوٹے ملک سنگاپور میں قدرتی وسائل بھی نہیں اور یہ سالانہ چارسو ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر رہا ہے۔ پاکستان کے قومی فیصلہ سازوں کو عصر حاضر کی حقیقتوں اُور ترقیاتی ضروریات کا ادراک ہونا چاہئے اور معیاری تعلیم‘ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے تاکہ ایک مضبوط ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف منتقل ہوا جا سکے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطاء الرحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)