معیشت اور ماحولیات

معیشت اور ماحولیات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ ایک دوسرے پر منحصر اصطلاحات ہیں‘ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو معیشت میں وسائل کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ ماحولیات میں ماحول کے مطالعہ پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ کسی علاقے میں ترقی یا زوال دوسرے علاقے کو متاثر کرتے ہیں۔ ماحول ایک مرکزی نقطہ ہے جب غیر پائیدار قومی ترقی اور زیادہ سے زیادہ وسائل سے فائدہ اٹھانے کی دوڑ نے قدرتی وسائل میں کمی اور ہمارے ارد گرد کے مضر اثرات کو جنم دیا ہے۔ ہم سب سے پہلے ماحولیاتی مسائل پیدا کرنے یا حل تلاش کرنے میں بے لگام معاشی ترقی کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ آبادی میں اضافے کے لئے زیادہ خوراک‘ رہائش‘ روزگار اور تعلیم کی سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان پناہ گاہوں اور معاشی ضروریات پورا کرنے کے لئے‘ انسانوں نے بڑھتی ہوئی آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے رہائشی کالونیوں اور فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کے لئے جنگلات کو صاف کرنا شروع کیا۔ اسی طرح‘ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے خوردونوش کے لئے‘ انسانوں نے مختلف فصلیں پیدا کرنے کے لئے زمین کے وسیع علاقوں پر کاشت کاری شروع کی۔ تکنیکی ترقی کے اگلے مرحلے اور معاشی ترقی کے تعاقب نے صنعت کاری‘ برآمدات اور درآمد کے عمل کو تیز کرنے کے لئے ریلوے‘ ہوائی جہاز اور بحری جہازوں جیسے جدید نقل و حمل کے طریقوں کو متعارف کرایا۔معاشی ترقی کی اس کوشش میں ہم نے قدرتی ماحول کو تباہ کرنا شروع کیا۔ جنگلات کے احاطہ کے خاتمے نے ہمارے ماحول کو دو اہم طریقوں سے منفی طور پر متاثر کیا۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جنگلات کا احاطہ قدرتی کاربن سنک کے طور پر کام کرتا ہے۔ جنگلات میں نمایاں کمی کے نتیجے میں فضا میں کاربن کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ اور آب و ہوا کی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق فی الحال‘ تمام کاربن کے اخراج کا گیارہ فیصد جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے ہے جو نقل و حمل کے تمام ذرائع سے ہونے والے اخراج سے زیادہ ہے۔ اسی طرح موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کی اہم وجہ صنعت کاری کا عمل ہے جس میں فوسل (ماحول دشمن) ایندھن کا بے لگام استعمال ہوتا ہے۔ناسا ارتھ آبزرویٹری کے مطابق سال دوہزاربائیس کی سطح کے مقابلے میں دوہزارتئیس میں فوسل ایندھن سے اخراج میں ایک اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ہوا۔ مزید برآں‘ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ”توانائی سے متعلق عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ نقل و حمل کا ہے۔“ ماحولیات پر جنگلات کے احاطہ کے خاتمے کا ایک اور نتیجہ بہت سے قیمتی جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کا نقصان ہے۔ ایک نسل کے معدوم ہونے سے قدرتی خوراک کی زنجیر میں خلل پڑتا ہے‘ جس سے جانوروں کی بہت سی اقسام کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اس کے علاؤہ جانوروں کی رہائش گاہوں کا بھی نقصان ہوتا ہے اور بہت سے جانوروں کو انسانی بستیوں میں پناہ تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے‘ جس کی وجہ سے زونوٹک بیماریاں پھیلتی ہیں۔ اس سے ماحولیاتی چیلنجوں کے ساتھ صحت کے بحران بھی پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری طرف‘ معاشی ترقی اور تکنیکی ترقی ان ماحولیاتی مسائل کے کچھ حل تلاش کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ مصنوعی ذہانت کسی ذریعہ سے کاربن کے اخراج کی صحیح مقدار کی پیمائش کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ اسی طرح‘ جیو سینسنگ جنگلات کی کٹائی کے علاقوں کا نقشہ بنانے اور غیر قانونی کٹائی کی نگرانی کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ زرعی سائنس دانوں نے فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور آب و ہوا میں لچک دار فصلیں اگانے کے لئے بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے میکانزم تیار کیا ہے۔ ابتدائی انتباہ کے نظام موسم کے نمونوں کی پیش گوئی کرسکتے ہیں تاکہ لوگوں کو اپنے طرز زندگی کو اپنانے اور اہم نقصانات سے بچنے میں مدد مل سکے اور اِن تکنیکی کامیابیوں کا مقصد بنی نوع انسان کی معاشی نسل کی طرف سے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنا ہے۔ماحولیاتی حالات معیشت پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ جب ہم جنگلات کا احاطہ صاف کرتے ہیں‘ تو یہ بہت سے لوگوں سے آمدنی کا ذریعہ بھی چھین لیتا ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے آنے والی بہت سی آفات جیسا کہ سیلاب‘ ہیٹ ویو اور خشک سالی معاشی سرگرمیوں میں خلل ڈالتی ہیں۔ پاکستان کے فنانس ڈویژن کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے معاشی نقصان کا تخمینہ قریب پندرہ ارب ڈالر ہے جبکہ جی ڈی پیکو پندرہ اعشاریہ دو ارب ڈالر کا نقصان اور معاشی بحالی کی مجموعی ضرورت سولہ اعشاریہ تین ارب ڈالر ہے۔ اس کے علاؤہ بالواسطہ معاشی نقصانات بھی ہیں۔ سیلاب پانی سے پیدا ہونے والی بہت سی بیماریاں لاتا ہے اور علاج اور ادویات پر بھاری خرچ کا سبب بنتا ہے اور غریبوں کی بچت کا بڑا حصہ آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی آفات کی وجہ سے خرچ ہو جاتا ہے۔ صحت کے چیلنجوں کی وجہ سے معاشی پیداوار کم رہتی ہے۔ غریب لوگ اپنی تقدیر بدلنے کے لئے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے کوششیں کرتے ہیں۔ سیلاب اور دیگر آفات کے نتیجے میں‘ متاثرہ آبادی یا بے گھر آبادی اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی متحمل نہیں ہوسکتی، جس سے طویل مدت میں مالی حالات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس طرح کی آفات ترقی پذیر اور غریب ممالک کے مجموعی معاشی حالات پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں۔ اگر ماحولیاتی حالات صحت مند اور پائیدار رہیں تو‘ یہ انفرادی اور قومی سطح پر معاشی حالات کو فروغ دینے میں مددگار بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)