ٹرمپ حملہ: مضمرات و نقصانات

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے نے امریکی سیاسی منظر نامے میں گویا ہنگامہ برپا کر دیا ہے اور ایک طرف اُن کی جیت یقینی دکھائی دے رہی ہے تو دوسری طرف اِس حملے کے نتیجے میں عوامی رائے پولرائزیڈ نظر آ رہی ہے اور بالخصوص شہری علاقوں میں رہنے والوں کی رائے میں تقسیم پہلے سے زیادہ گہری دکھائی دے رہی ہے۔ اس مہلک حملے کے بعد ٹرمپ کی جانب سے خون آلود چہرے کے ساتھ مٹھیاں لہرانے کی فوٹیج کو امریکی اور بین الاقوامی میڈیا نے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا تھا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ممکنہ صدارتی حریف پر حملے کی خبر ملنے پر فوری طور پر ٹرمپ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ قوم سے خطاب کے دوران بائیڈن نے سیاسی تشدد کی مذمت کی اور قومی اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی سیاست میں اِس قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے بالخصوص امریکیوں پر زور دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اب بھی اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور انہوں نے اس حساس معاملے پر جلد بازی میں رائے قائم نہ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ انہوں نے سیاسی گفتگو میں زیادہ سے زیادہ تہذیب اور احترام کی ضرورت کی اہمیت بھی اُجاگر کی ہے۔سیاست دانوں اور شہریوں کی جانب سے اس حملے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی اور بہت سے لوگوں نے پرتشدد واقعے پر غم و غصے کا اظہار کیا تاہم اس کے بعد امریکی عوام میں بھی شدید تقسیم دیکھی گئی۔ کچھ نے ٹرمپ کی ماضی کی پالیسیوں اور اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ دیگر ان کے ارد گرد جمع ہو رہے ہیں اور اس حملے کو جاری صدارتی مہم سبوتاژ کرنے کی سیاسی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق قاتلانہ حملے کی خبر سامنے آنے کے چند منٹ بعد ہی امریکہ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اسٹیج کا لفظ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل تھا تاہم سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے اسٹیج ڈرامے کے ایسے سازشی نظریات کو مسترد کرتے ہوئے ٹرمپ کے ساتھ بھرپور یک جہتی کا اظہار کیا۔صورتحال کا بغور جائزہ لینے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی سیاست پر اس حملے کے اثرات کثیر الجہتی ہوں گے کیونکہ اس واقعے نے پہلے سے منقسم ملک کو مزید پولرائز کر دیا ہے۔ کچھ لوگ ٹرمپ کو سیاسی ظلم و ستم کا شکار سمجھتے ہیں جبکہ کچھ انہیں ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ اس حملے نے سیاسی بیان بازی میں بھی اضافہ کیا ہے اور کچھ عناصر اپنے ایجنڈے اور بیانیوں کو آگے بڑھانے کے لئے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔امریکی میڈیا ہاؤسز نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے کئی روز بعد بھی ایرانی حکمرانوں نے کوئی مذمتی بیان جاری کیوں نہیں کیا‘ مغربی ذرائع ابلاغ کی بعض رپورٹس میں ایران کو ٹرمپ پر حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز سمیت معروف امریکی اخبارات نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیوں کے بارے میں رپورٹس شائع کی ہیں۔ اگرچہ یہ رپورٹس امریکی سکیورٹی حکام کی معلومات پر مبنی تھیں لیکن ذرائع کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ایران نے واضح طور پر اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کے عہدیداروں نے ان الزامات کو بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا‘ حملہ آور موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا اور سرکاری سطح پر ابھی تک ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے جس سے اس حملے کے پیچھے کسی غیر ملکی ہاتھ کی نشاندہی ہو۔ تاہم اس واقعے نے سیاسی شخصیات کی سلامتی اور امریکہ میں سیاسی تشدد کے امکان کے بارے میں تشویش پیدا کردی ہے۔ راقم الحروف کے خیال میں امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منصفانہ اور شفاف تحقیقات یقینی بنانے اور حملے کے ذمہ داروں کو ترجیحی بنیادوں پر انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔ عالمی سپر پاور ہونے کے ناطے الزام تراشی سے بچنے کے لئے سفارتی کوششیں بھی بہت اہم ہیں اور دنیا امریکہ کی طرف دیکھ رہی ہے جہاں سیاسی تشدد اور عوام کی ایک دوسرے سے پیدا ہوئی نفرت نے ایک ایسے ماحول کو جنم دیا ہے جس میں سیاسی برداشت کو نقصان پہنچا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)