ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف بیرونی قرضوں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگراموں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ وزیر اعظم نہیں چاہتے کہ ملک آخری حربے کے طور پر عالمی قرض دہندہ کا دروازہ بار بار کھٹکھٹائے۔ آئی ایم ایف نے برسوں سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا قرض دیا‘ جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے پاکستان کی معیشت کو مفلوج کرنے کے علاؤہ عام پاکستانیوں کے لئے بے پناہ مشکلات پیدا کردی ہیں۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ہیڈکوارٹرز میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں آئی ایم ایف کے حالیہ قرض پروگرام کو حتمی (آخری) سمجھنا ہوگا اور اب وقت آ گیا ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے ہم تیزی سے کام کریں اور انتھک کام کریں۔ اس کے بعد ہی پاکستان آئی ایم ایف کے قرض سے نجات حاصل کر لے گا۔ شہباز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ جب بھی پاکستان کو قرضوں کے لئے عالمی بینک اور دیگر اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے تو اس سے انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ ”ہم اربوں‘ کھربوں جمع کرتے ہیں اور ہم اب بھی عالمی بینک اور دیگر کے پاس جا رہے ہیں‘ اِس طرح سے کوئی بھی ملک نہیں چل سکتا۔“ یہ
بیان آئی ایم ایف کی جانب سے اس اعلان کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان تین سالہ سات ارب ڈالر کے امدادی پیکج کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس سے قوم کو انتہائی ضروری راحت ملی اور سٹاک ایکسچینج کے بروکرز میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی جن کا ماننا ہے کہ یہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے اربوں ڈالر کی جدوجہد کرنے والی لڑکھڑاتی معیشت کے لئے اچھا اشارہ ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پروگرام‘ جسے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کی ضرورت ہے‘ پاکستان کو ”میکرو اکنامک استحکام“ فراہم کرنے اور مضبوط‘ زیادہ جامع اور لچکدار ترقی کے لئے حالات پیدا کرنے کے قابل بنائے گا۔ ملک کو سخت اصلاحات پر عمل درآمد کرنا پڑے گا جس سے عام پاکستانیوں پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ پڑ سکتا ہے۔ بہت سے لوگ آئی ایم ایف کے دعوؤں کو معمولی (آٹے میں نمک کے برابر) سمجھتے ہیں اور اِسے معاشی ترقی کی دلیل بھی گردانتے ہیں جبکہ فنڈ کی شرائط دو بالکل متضاد مظاہر ہیں۔ کفایت شعاری کے مخالف ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں‘ وہ ان ریاستوں کی معیشتوں کو تباہ کر دیتے ہیں جو ان سے قرض لیتے ہیں۔آئی ایم ایف کی شرائط اِس مرتبہ زیادہ نرم دکھائی دے رہی ہیں۔ انہیں ان کے مہلک اثرات کو چھپانے کے لئے اصلاحات کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے لیکن ان بظاہر خوشنما اصطلاحات کے پیچھے سرمائے کی بے رحمانہ حکمرانی اور طاقتوروں کی بالادستی چھپی ہوئی ہے جو گلوبل ساؤتھ میں صنعت کاری ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ترقی پذیر ریاستوں میں اپنی مصنوعات کی کھپت کو یقینی بنا سکیں اور پاکستان جیسے ممالک میں کوئی بھی مینوفیکچرنگ یا صنعت کاری نہ ہو۔ بہت سے لوگ آئی ایم ایف کو نوآبادیات کی ایک شکل قرار دیتے ہیں جس میں سابق استعمار ماضی کی طرح بندوقوں کے ساتھ نہیں آتے بلکہ ان مالیاتی اداروں کی امداد یا قرضوں کے پیکج کے ذریعے گلوبل ساؤتھ میں داخل ہوتے ہیں۔ عالمی معیشت میں ساختی عدم توازن کو دیکھتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کے لئے آئی ایم ایف یا مارکیٹ بنیاد پرستی کو مسترد کرنا بہت مشکل ہے۔ جن لوگوں نے اداروں کے اس غلبے کو چیلنج کرنے کی ہمت
کی انہیں خوفناک انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ گلوبل ساؤتھ میں کوئی بھی رہنما جس نے ایک آزاد اقتصادی پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی اسے یا تو معزول کر دیا گیا یا ختم کر دیا گیا۔ جن رہنماؤں کو ختم نہیں کیا جا سکا انہیں مختلف سزادی گئی۔ مثال کے طور پر کیوبا پر خوفناک پابندیاں عائد کی گئیں جو 1962ء سے عائد ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات کا مکمل اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے کیوبا کو تقریباً 130 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر تک‘ سوویت یونین نے جزیرے کی زیادہ تر چینی کی برآمدات مارکیٹ سے زیادہ نرخوں پر خرید کر کیوبا کو زندہ رہنے میں مدد کی۔ اِن پابندیوں نے کیوبا کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بھی منفی طور پر متاثر کیا جس سے امریکہ میں پیٹنٹ شدہ زندگی بچانے والی ادویات اور طبی آلات کی درآمد کو روک دیا گیا۔ کیوبا کی طرح وینزویلا نے بھی مالیاتی اداروں کی نیو لبرل اصلاحات کی مخالفت کرنے کی کوشش کی۔ ان اداروں کے مالی اعانت کاروں نے مسلسل سخت پابندیاں عائد کرکے وینیز ویلا کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبدالستار۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
وینزویلا کے ماہر معاشیات فرانسسکو روڈریگیز کا خیال ہے کہ 2017ء میں پہلی مرتبہ عائد کی جانے والی مالی پابندیوں کے نتیجے میں تیل کی پیداوار میں تیزی سے کمی واقع ہوئی جو ملک کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے بعد کے اقدامات بشمول جنوری 2019ء میں امریکہ کو تیل کی برآمدات پر پابندیاں‘ کم از کم ساڑھے سات ارب ڈالر ہیں۔ یہ صرف ایک یا دو لاطینی امریکی ریاستیں نہیں بلکہ پورا براعظم ہے عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کی وجہ سے معاشی طور پر تباہ حال ہوچکا ہے۔ واشنگٹن میں سینٹر فار اکنامک اینڈ پالیسی ریسرچ میں بین الاقوامی پالیسی کے ڈائریکٹر الیگزینڈر مین کے مطابق 1980ء کی دہائی کے قرضوں کے بحران نے براعظم کو امریکہ اور آئی ایم ایف کے زیر انتظام نیو لبرل ”ساختی ایڈجسٹمنٹ“ کے لئے وسیع تجربہ گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اِن ایڈجسٹمنٹوں میں ڈی ریگولیشن‘ نجکاری اور عوامی خدمات میں کٹوتی شامل تھی۔ اہم دعویٰ ہے کہ ان ایڈجسٹمنٹوں نے ترقی کے منفرد لاطینی امریکی ماڈل کو ترک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس نے ”درآمدات کے متبادل صنعت کاری“ کے ذریعے معیشت میں وسیع پیمانے پر ریاستی مداخلت کو فروغ دیا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جس قدر تیز رفتار اقتصادی ترقی کا وعدہ کیا گیا تھا وہ پاکستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ دسمبر 1958ء سے اکتوبر 2022ء کے درمیان پاکستان نے 22 مرتبہ اس فنڈ سے رجوع کیا لیکن اس کے باوجود حقیقی معاشی ترقی ممکن نہیں۔ 1960ء سے 2024ء تک ملک نے صرف دس بار 7 فیصد سے زیادہ اقتصادی ترقی دیکھی‘ جو کبھی کبھار 10 فیصد سے بھی زیادہ ہوتی تھی لہٰذا پاکستان کے لئے غیر ترقیاتی اخراجات میں نمایاں کمی لانا ہوگی‘ اشرافیہ کو سالانہ سترہ ارب ڈالر سے زائد کی سبسڈی دینا بند کرنا ہو گی‘ لگژری اشیاء کی درآمدات محدود کرنا ہوں گی اور مارکیٹ ویلیو کی بنیاد پر رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانا الگ سے انتہائی ضروری ہے۔ ایم این اے کے ترقیاتی فنڈز اور وفاقی وزارتوں پر400ارب روپے سے زائد کے اخراجات میں کمی کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ نمائشی اقدامات اور اعلانات کی بجائے اگر حقیقی اور عملی اقدامات کئے جائیں تو پاکستان کو حقیقی طور پر آئی ایم ایف کے انحصار سے آزاد ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔