بیرون ملک رہنے کی وجہ سے راقم الحروف کو کئی ایک عالمی مباحثوں کے موضوعاتی محور کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ جن میں معاشی رجحانات‘ مصنوعی ذہانت کے ممکنہ اثرات‘ آب و ہوا کی تبدیلی اور اِس کا حل اور تکنیکی جدت کی تیز رفتار ترقی جیسے اہم موضوعات اور مسائل شامل ہیں۔ اس کے بالکل برعکس‘ جب پاکستان میں جاری مباحثوں کو دیکھا جائے تو یہ صرف اور صرف سیاست کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں اور توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ سیاست اور زیادہ سے زیادہ سیاست پر زور سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا۔چین میں ’یک جماعتی سیاسی نظام (پارٹی اسٹیٹ سسٹم)‘ رائج ہے۔ ’پارٹی‘ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی سی پی) ہے جبکہ ملک انتظامیہ‘ پارلیمنٹ اور عدلیہ پر مشتمل ہے۔ چین کی سیاسی جماعت ملک کی مجموعی پالیسی طے کرتی ہے۔ انتظامیہ‘ پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت ’ریاست‘ ان پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے۔ چین میں عدلیہ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار نہیں ہے۔ چین کے ’پارٹی اسٹیٹ سسٹم‘ نے انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 1981ء میں
833 ملین سے کم کرکے 2015ء میں صرف 6 ملین کر دی ہے اور یہ بات ورلڈ بینک نے بھی تسلیم کی ہے۔ یہاں ان ممالک کی جزوی فہرست دی جا رہی ہے جنہوں نے صرف معاشیات پر توجہ مرکوز کی اور سیاست کو نظر انداز کیا۔ اِن میں ویت نام‘ جنوبی کوریا‘ ملائشیا‘ بنگلہ دیش‘ روانڈا‘ بوٹسوانا‘ کوسٹا ریکا‘ چلی‘ پیرو‘ پاناما اور ایسٹونیا شامل ہیں۔ ویت نام نے سیاست کو نظر انداز کیا اور تجارتی لبرلائزیشن پر توجہ مرکوز کی۔ جنوبی کوریا اور ملائشیا نے سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے برآمدات پر مبنی صنعت کاری پر توجہ مرکوز کی‘ بنگلہ دیش نے اپنی ملبوسات کی صنعت پر توجہ مرکوز کی۔ روانڈا نے سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نسل کشی کے بعد معاشی اصلاحات اور گڈ گورننس پر توجہ مرکوز کی۔ کوسٹا ریکا نے ماحولیاتی سیاحت پر توجہ مرکوز کی۔ ایسٹونیا نے آئی ٹی پر توجہ مرکوز کی۔پاکستان ویسٹ منسٹر نظام کے تحت کام کرتا ہے‘ جس کی تین شاخیں شامل ہیں۔ ایگزیکٹو‘ پارلیمنٹ اور عدلیہ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں بنیادی طور پر سیاسی معاملات میں مصروف ہیں‘ اس کے برعکس‘ موجودہ ایگزیکٹو برانچ معاشی مسائل کو ترجیح دیتی نظر آتی ہے۔ تمام امکانات میں‘ یہ نظام مؤثر حکمرانی یا معاشی ترقی فراہم کرنے کے لئے کافی نہیں۔ نظام میں فطری عدم توازن اور غلط ترجیحات شامل ہیں۔ سیاسی مسائل پر پارلیمنٹ اور عدلیہ کی توجہ دونوں کو معاشی اور سماجی چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کی سیاست میں مصروفیت و مداخلت کے تین نتائج ہوتے ہیں۔ ایک قانون سازی کی خرابی‘ دوسرا عدالتی کارکردگی اور تیسرا مربوط پالیسی کے نفاذ کا فقدان ہوتا ہے۔ اِس بات کا قوی امکان ہے کہ معاشیات کو ترجیح دینے کے لئے ایگزیکٹو کی الگ تھلگ کوششیں پارلیمنٹ اور عدلیہ کی حمایت اور تعاون کے بغیر ناکافی ہیں نتیجتاً اس نظام کی منقسم توجہ جامع اور پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔پاکستان کو تین چیزیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک‘ پارلیمانی نظام میں تبدیلی‘ عدلیہ کی توجہ سیاست سے ہٹانے اور معاشی ترقی کو ترجیح دینی چاہئے۔ دوم‘ جنوبی کوریا اور ایسٹونیا جیسے ممالک میں دیکھے جانے والے کامیاب ماڈلز کی طرح ایک زیادہ مربوط نقطہ نظر اپنایا جائے۔ تیسرا‘ ایک مرکزی اتھارٹی کی طرف سے واضح اقتصادی اہداف کے ساتھ قومی مربوط پالیسی کا نفاذ کیا جائے اور اِسے تینوں شاخوں میں مشترکہ طور پر نافذ کیا جائے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران کی جانے والی تجرباتی تحقیق کی بنیاد پر‘ قانون سازوں کی توجہ شواہد پر مبنی اقتصادی پالیسی سازی اور کسی ملک کی اقتصادی ترقی کے درمیان مثبت تعلق موجود ہے۔ اسی طرح عدلیہ جو معاہدوں کو برقرار رکھنے اور تنازعات کے مؤثر حل کی سہولت فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے وہ سرمایہ کاری کو راغب کر سکتی ہے اور معاشی استحکام میں بھی اپنا خاطرخواہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)