نقل مکانی در بحران

نقل مکانی کتنی مشکل ہے؟ نقل مکانی کرنے والوں کی روحوں‘ دلوں‘ سازوسامان اور سب سے بڑھ کر جسمانی تندرستی متاثر ہوتی ہے۔یہ عمل ان لوگوں کے گہرے دکھ کو بھی ظاہر کرتا ہے جو غیر قانونی امیگریشن کی کوشش کرتے ہیں اور اچھے دنوں کی اُمید میں اپنا سب کچھ کھو دیتے ہیں۔ کسی غیر ملک میں غیر یقینی زندگی کے لئے بے قاعدہ ہجرت کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں ہوتا اور یہ ہمیشہ تارکین وطن کے لئے بہتر زندگی کی ضمانت بھی نہیں دیتا۔تارکین وطن کی محنت مشقت اور انسانی اسمگلنگ کی کہانیاں خوفناک ہوتی ہیں۔ بہت سے تارکین وطن خالی ہاتھ لوٹنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کو جذباتی اور مالی دبا¶ میں ڈالنے کے لئے خود کو قصوروار سمجھتے ہیں جبکہ پیچھے رہ جانے والے خاندان اپنے پیاروں کی قسمت نہ جاننے کی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کے لئے سفر اکثر خطرناک ہوتا ہے‘ جس میں پرخطر راستے طے کرنا ہوتے ہیں۔ کسی ایسے شخص کی موت اُس کے پیچھے بیوا¶ں اور یتیموں کو بغیر کسی مالی مدد یا سہارے کے چھوڑ سکتی ہے۔ بہت سے خاندان نقل مکانی کی کوشش کو پورا کرنے کے لئے قرض بھی لیتے ہیں اور اُن کا مال و متاع اِس کوشش میں اُن کے ساتھ ہی ڈوب جاتا ہے۔ ایسے لوگ ناکام ہونے کی صورت میں قرض ادا نہیں کر سکتے۔ تعلیم‘ بہتر رہائش یا کاروبار شروع کرنے کے منصوبے اکثر تاخیر کا شکار ہوتے ہیں یا پھر اُنہیں ترک کر دیا جاتا ہے مزید برآں‘ بہت سے لوگ چونکا دینے والے اور غیر انسانی واقعات کا ذکر کرتے ہیں جو انسانی اسمگلروں کی بربریت کی ناقابل یقین کہانیاں ہوتی ہیں جو دوسروں کی کمزوری اور مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل تارکین وطن اسمگلنگ نیٹ ورک کے ذریعے ایک ملک میں داخل ہوئے اور وہ ایک ریفریجریٹرڈ ٹرک میں مردہ پائے گئے تھے۔ یہ ایک غیر یقینی سفر ہے جہاں تارکین وطن کو نہ صرف قدرتی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے تشدد بھی جھیلنا پڑتا ہے۔ نقل مکانی کرنے والے جو افراد بچ جاتے ہیں انہیں اکثر حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے جہاں حالات کئی گنا زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال غیر قانونی تارکین وطن کو انتہائی خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم سب کو وہ واقعہ یاد ہے جب ایک سو مسافروں کی گنجائش والی ایک کشتی اوور لوڈ ہو گئی تھی۔ غیرقانونی طریقے سے کسی ملک جانے کے سفر کو ”ڈنکی“ کہا جاتا ہے اور ڈنکی راستوں کا استعمال کرنے والے تارکین وطن کے ساتھ اب تک کے بدترین واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آٹھ سو افراد اِس طریقے کو اختیار کرکے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بے رحم سمندر پناہ گزینوں اور تارکین وطن کا قبرستان بن گیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ مہاجرت کی زندگی کی حقیقت تلخ ہے اور اِس میں بھلائی کا امکان کم ہے۔ انہوں نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے بیرون ملک مواقع تلاش کرنے والے لاکھوں افراد کے لئے محفوظ راستے اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے اگرچہ تارکین وطن برادریاں اپنے میزبان ملک یا معاشرے کی طرف سے پیش کردہ فوائد سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں لیکن انہیں اصولوں اور روایات کے مطابق خود کو ضم کرنا ہوگا اور اپنے میزبان ملک میں قانونی حیثیت حاصل کرکے کسی پائیدار حل کے لئے کام کرنا ہوگا۔ پوری انسانی تاریخ میں‘ ہجرت نے افراد اور برادریوں کی زندگیوں کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔ عصر حاضر میں انفرادی نقل مکانی اور امیگریشن کی وجہ سے معاشی بہتری کی توقع کی جاتی ہے۔ افغان تارکین وطن حال ہی میں مختلف ممالک میں آباد ہوئے ہیں‘ جس سے بہت سے لوگوں کے لئے نئے مواقع اور بہتر معیار زندگی پیدا ہوئے لہٰذا قومی سرحدوں کے اندر‘ پاکستانی نوجوانوں کو غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور ممکنہ نتائج اور قانونی عمل کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ وہ اپنے اندر ایسی مہارتیں پیدا کریں اور تعلیم و تربیت حاصل کریں جس سے اُنہیںکسی بھی ملک میں نقل مکانی نہ کرنی پڑے اور وہ اپنے آبائی ملک اور آبائی علاقوں ہی میں رہتے ہوئے پائیدار ذریعہ معاش حاصل کرسکیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں افسانوی سپر ہیروز‘ صحافیوں‘ نوبل انعام یافتہ افراد‘ کاروباری شخصیات‘ سرکاری عہدیداروں‘ مخیر حضرات‘ صنعت کاروں‘ ٹی وی نیوز کے نامہ نگاروں اور کمپیوٹر سائنس دانوں کی کامیابی کی کہانیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے آبائی ملک کے اندر یا قانونی ہجرت کے ذریعے خوشحال ہوئے ہیں۔ ہمیں ایسے سرکاری پروگراموں کو شروع کرنا چاہئے اور اُن کی حمایت کرنی چاہئے جو روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں اور بے قاعدہ نقل مکانی کرنے والے معاشی دبا¶ کو کم کرنے کے لئے انٹرپرینیورشپ کی حمایت کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو مقامی سطح پر درکار وسائل اور مواقع فراہم کرنے کے لئے کمیونٹی سپورٹ سسٹم کو مضبوط بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ قانونی نقل مکانی کے مواقع اور قانونی راستہ اختیار کرنے کے فوائد کے بارے میں آگاہی کو فروغ دینا اہم ہے۔ ان کوششوں کے بغیر‘ نئے سرحدی کنٹرول غیر قانونی سرحد پار نقل و حرکت کے لئے انتہائی غیر م¶ثر ہوں گے کیونکہ برطانیہ‘ یورپی یونین‘ خلیجی ریاستوں اور امریکہ جیسے ممالک ڈیجیٹل شناختی کارڈز اور سخت امیگریشن پالیسیاں متعارف کروا رہے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زہرا خالد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)