ماحولیاتی جرائم

ماحولیاتی جرائم کے نتائج بہت سے دیگر سنگین جرائم کی نسبت زیادہ سنگین ہیں اور بدقسمتی سے ”صرف قوانین کو نافذ“ کرکے ایسے خصوصی جرائم کو مکمل طور پر کنٹرول یا روکا نہیں جا سکتا۔ یہ جرائم پورے معاشرے میں بڑے پیمانے پر لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیئے جاتے ہیں۔کم عمری سے ہی ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ پانی اور ہوا مفت ہیں لیکن اِن کی قدر یا خیال رکھنے کی تعلیم نہیں دی جاتی یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت ماحول کو معمولی سمجھنے لگتی ہے۔ ہمارے ذہنوں میں موجود اس فریب کے ساتھ ہم نے فطرت کے خلاف لاپرواہی سے کام لیا ہے۔ یہ محسوس نہیں کیا کہ ہماری یہ غفلت بالآخر ہمارے معمولات زندگی اور ہماری صحت تک کو نقصان پہنچائے گی۔ نتیجتاً آنے والی نسلوں کے لئے کھلی ہوا میں سانس لینا تقریبا ناممکن ہو جائے جیسا کہ اکثر بڑے شہروں میں دیکھا جا رہا ہے۔ لہٰذا ماحولیاتی صحت کے براہ راست دو اہم عوامل ہیں جس کے لئے دو جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک شہریوں کو مخاطب کرنا اور دوسرا ماحولیاتی خطرات کے لئے حکومتی ردعمل پر توجہ مرکوز کرنا۔ مثال کے طور پر سموگ کو لیجئے۔ یہ ماحولیاتی نقصان کے سب سے اہم نتائج میں سے ایک ہے اور بدقسمتی سے لاہور اور پنجاب میں اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مستقبل میں ہونے والے نقصانات کی پیش گوئی کرنے کے لئے ٹھوس کوششوں‘ باخبر فیصلوں اور خاطر خواہ مطالعے کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسی بھی صوبائی حکومت کو اس مسئلے سے کامیابی سے نمٹنا ممکن نہیں رہا۔اسی طرح اس صوبائی مسئلے کو اکثر ایک ہی محکمے کی ذمہ داری قرار دیا جاتا ہے جو مکمل طور پر گمراہ کن طریقہ کار ہے۔ شہریوں کی مدد کے علاوہ سرکاری شعبے کے اداروں کو سموگ کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ تعاون کثیر الجہتی اقدامات کی صورت ہونا چاہئے جو ان سموگ کلسٹروں کو منتشر کرسکتے ہیں اور ماحول کو ہر عمر کے لوگوں کے لئے دوبارہ سانس لینے کے قابل بنا سکتے ہیں لیکن یہ نظام کام کیسے کرے گا؟ مختلف شعبوں کو یکجا کرکے آگے بڑھنے کا راستہ ہی درست انتخاب ہوگا۔ پنجاب کی صوبائی حکومت نے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے تحت ایک ادارہ جاتی تشکیل کی ہے جس سے مستقبل کی سمت متعین ہو گئی۔ پنجاب کا مسئلہ سموگ ہے جس کی وجوہات یا تخفیف سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر منسلک ہر محکمہ کو ماحولیاتی بہتری کی کوششوں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اِن میں ٹرانسپورٹ سے لے کر صحت اور زراعت سے لے کر تعلیم تک ہر محکمے کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس میں ای بسوں کی خریداری سے لے کر ٹریفک کی بھیڑ کو کم کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد‘ پانی کے چھڑکاؤ اور سڑک کے کناروں کی تعمیر و ترقی جیسے بنیادی اقدامات شامل ہیں۔ اِس طرح کی ہر چھوٹی یا بڑی حکومتی مداخلت سموگ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ اگر پنجاب حکومت کراس سیکٹرل نقطہ نظر کے ذریعے نفاذ اور اسٹریٹجک حکمت عملی پر کامیابی سے عمل درآمد کرتی تو یہ پنجاب میں مسلم لیگ (نواز) کی زیر قیادت صوبائی حکومت کے تحت ڈینگی کنٹرول کی کوششوں کی طرح ایک قابل ذکر کیس سٹڈی بن سکتی ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ مذکورہ ماڈل کی کامیابی براہ راست کمیونٹی کی شمولیت اور عوامی ملکیت سے مشروط ہے۔ شہری ماحولیاتی صارفین ہیں اور اِس حیثیت سے، انہیں ماحولیات کی بہتری و تحفظ کو ترجیح دینی چاہئے۔ جہاں تک دیہی علاقوں کا تعلق ہے تو دیہات میں فصلوں کی باقیات (پرالی) جلانے سے سموگ (دھند اور دھواں) پیدا ہوتا ہے اور اگر کاشتکار اس عمل سے گریز کریں اور دیہی باشندے بھی تحفظ ماحول کے عزم میں شہروں کے شریک سفر ہوں تو اِس سے بڑی حد تک تبدیلی آ سکتی ہے۔ دوسری جانب شہری علاقوں میں ذاتی ٹرانسپورٹ اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا زیادہ استعمال بھی سموگ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ لوگوں کو کار پولنگ اور دیگر ماحول دوست طریقوں کو ترجیح دے کر جاری ماحولیاتی تحفظ مہم کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ ہفتے میں ایک بار سائیکل چلانا صحت اور ماحول دونوں کے لئے متعدد فوائد کے ساتھ سفر کا ایک بہترین متبادل ہوسکتا ہے۔ مزید برآں تحفظ ماحول میں صنعتی شعبے کا بہت بڑا کردار ہے کیونکہ صنعتی فضلہ اور اخراج اکثر خطرناک ہوتے ہیں۔ اگر صوبائی حکومت صنعتی نقشہ سازی اور نفاذ کے نظام کو کامیابی سے نافذ کرتی ہے تو یہ درحقیقت طویل مدتی نقصانات کا ازالہ کر سکتی ہے۔ کارکردگی کا احتساب اور ذمہ داری کے کلچر کو فروغ دے کر ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو اپنے قدرتی وسائل کی قدر اور حفاظت کرے۔ شہریوں اور حکومت کے درمیان تعاون ماحولیاتی مسائل سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی کلید ہے۔ کمیونٹی کلین اپ مہمات‘ شجرکاری مہم اور ری سائیکلنگ پروگرام جیسے اقدامات صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتے ہیں جب عوام اور حکام دونوں کی حمایت حاصل ہو۔ مزید برآں‘ قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری اور پائیدار زرعی طریقوں کو فروغ دینے سے آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط کے منفی اثرات کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ آخر کار ہمارے ماحول کی صحت ہمارے اجتماعی اعمال اور روئیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دے کر اور پائیداری کی ثقافت کو فروغ دے کر ہم آنے والی نسلوں کے لئے صحت مند‘ زیادہ پائیدار مستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ ایک صاف ستھری اور سرسبز دنیا ہم سب کی ضرورت ہے اور اِس کے حصول کیلئے ہم میں سے ہر ایک کو شعوری طور پر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر انیم علی عباس۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)