پاکستان کے پاور سیکٹر کو اس وقت پیداوار سے لے کر ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن تک متعدد وجوہات کی بنا پر شدید بحران کا سامنا ہے۔ گردشی قرضے اپنے عروج پر ہیں اور بظاہر ناقابل تسخیر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ شعبہ کبھی بھی اس قدر بُری حالت میں نہیں تھا جتنا آج دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی مداخلت اور فرسودہ انفراسٹرکچر کے ساتھ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اس شعبے کو درپیش مسائل میں شامل ہیں۔ اس بحران کی بنیادی وجہ متضاد پالیسی فریم ورک ہے‘ جو وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اس سے وابستہ گورننس کے مسائل بھی ہیں۔انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) نے موجودہ نظام کو خراب کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے عام پاکستانیوں (صارفین) کے لئے بجلی واجبات کی ادائیگی ناممکن ہو گئی ہے۔ یہ چارجز ڈھائی کھرب روپے کے اعداد و شمار کو چھو چکے ہیں‘ جو بجلی کے چارجز میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام میں بجلی کے شعبے میں اصلاحات کے ذریعے گردشی قرضوں کو کم کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے جس کے لئے وزارت توانائی کی جانب سے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (جینکوز) اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈی آئی ایس سی اوز) کو اپنے بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے لے کر ڈسٹری بیوشن لاسز اور چوری تک جلد از جلد اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے‘ جو دور دراز دیہی علاقوں میں عام ہے۔ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ یہ اپنے پرانے بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے نصب شدہ پیداواری صلاحیت کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔بجلی کی متضاد پالیسیوں نے پورے نظام میں گڑبڑ پیدا کر رکھی ہے۔ 1994ء کی پاور پالیسی نے آئی پی پیز کا تصور متعارف کرایا تھا۔ جس سے بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بجلی کے نرخ متاثر ہوئے۔ 1998ء میں دوسری پاور پالیسی نے پہلے سے طے شدہ ٹیرف کے ساتھ ساتھ آئی پی پیز کے درمیان مسابقتی بولی متعارف کروائی۔ یہ پہلی تجویز کے مقابلے میں نسبتاً بہتر تجویز تھی۔ تیسری پالیسی سال 2002ء میں متعارف کرائی گئی تھی‘ جس میں قابل تجدید توانائی کے تصور کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اس طرح کی چوتھی پالیسی سی پیک کے پس منظر میں متعارف کرائی گئی تاکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری لائی جاسکے۔ ریگولیٹری فریم ورک میں مسائل نے سرمایہ کاروں کے ساتھ صارفین کے اعتماد کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ جب ٹیرف اور ٹیکسوں کے تعین کی بات آتی ہے تو نیپرا کی پالیسیاں بھی متضاد رہی ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اب ان مسائل کی وجہ سے متعدد ٹیکس شامل ہو چکے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پیز) کا تصور ایک اور مسئلہ ہے جو پاور پالیسی فریم ورک کو متاثر کرتا ہے۔ آئی پی پیز‘ واپڈا سے متعلق ہائیڈل پراجیکٹس اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لئے ٹیرف اور ٹیکسز کا تعین کرتے وقت ایک مستقل ریگولیٹری فریم ورک ہونا چاہئے جس کی عدم موجودگی کے باعث بجلی کے نرخوں کی تقسیم کے حوالے سے کافی الجھن پائی جاتی ہے۔ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی) نیٹ ورک میں بھی خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کی گئی جس کی دیکھ بھال این ٹی ڈی سی کرتی ہے۔ ٹی اینڈ ڈی کے نقصانات اور چوری ایک مستقل مسئلہ رہا ہے‘ جو تقریباً بیس سے تیس فیصد تک ہے۔ این ٹی ڈی سی کا ٹی اینڈ ڈی انفراسٹرکچر پچیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا جبکہ ہمارے پاس بیالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز ادا کر رہے ہیں جو بجلی پیدا نہیں کر رہے ہیں اور یہ مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ ہمیں این ٹی ڈی سی کے بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے اور مضبوط بنانے کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔پاکستان فرنس آئل اور ایل این جی پر چلنے والے آئی پی پیز کی جانب سے تیار کردہ غیر قابل تجدید انرجی مکس سے بجلی استعمال کرتا ہے۔ کپیسٹی چارجز کے علاؤہ ایکویٹی چارجز بھی تشویش کا باعث ہیں‘ جن پر گزشتہ پچیس برس سے کام کرنے والے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
وہ پہلے ہی ایک سازگار پاور پالیسی فریم ورک کی وجہ سے بہت زیادہ منافع کما چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ان معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کی کوشش کی اور کسی نہ کسی طرح کا سمجھوتہ ہوا۔ اگرچہ سی پیک منصوبوں پر متعدد وجوہات کی بنا پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوسکے لیکن دیگر آئی پی پیز کے ساتھ کچھ پیش رفت ہوئی۔ اب حکومت کے پاس واحد حل یہ ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کئے جائیں تاکہ گنجائش کے چارجز کا بوجھ کم کیا جاسکے۔شعبہ توانائی سے متعلق گورننس کے مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ڈی آئی ایس سی اوز کے کچھ سی ای اوز سیاسی طور پر ایڈہاک بنیادوں پر کام کر رہے ہیں‘ جس نے اِس پورے نظام کو خراب کر رکھا ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر نااہلی‘ بجلی کے بلوں کی کم وصولی اور مسلسل چوری اور لیکیج کی بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے بھاری نقصان ہوتا ہے۔ اِن اور دیگر نااہلیوں کی وجہ سے گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں‘ معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد اُٹھ رہا ہے۔ اگر ہم اپنی پوری پیداواری صلاحیت کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرتے تو گردشی قرضوں سے بچا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اگر ہم سی پیک کے اگلے مرحلے میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) بنانے میں کامیاب ہو جاتے تو اس سے معاشی ترقی عملاً ممکن ہوتی۔ ابتدائی طور پر ستائیس ایس ای زیڈ ز تجویز کئے گئے تھے جن میں سے 9 ترجیحی زونز چینی صنعتوں کی ممکنہ منتقلی کے لئے تیار تھے۔ ابتدائی طور پر سی پیک سے وابستہ آئی پی پیز کی تنصیب شدہ صلاحیت کو ایس ای زیڈز میں منتقل کی جانے والی ان صنعتوں کے لئے استعمال کرنے کے لئے بڑھایا گیا لیکن بدقسمتی سے ان ایس ای زیڈز میں مطلوبہ سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان صنعتوں کو آج تک منتقل نہیں کیا جا سکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ صارفین بجلی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ اُٹھائے ہوئے آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز ادا کر رہے ہیں۔بجلی کے شعبے کا بحران متعدد پاور پالیسیوں کی وجہ سے بڑھ گیا ہے جو ڈالر انڈی کسیشن کے ساتھ ساتھ آئی پی پیز کو اعلی شرح منافع کے باعث ہے۔ بجلی گھر درآمدی تیل پر چلتے ہیں جس میں قیمتوں اور شرح تبادلہ میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے جس سے پیداواری لاگت میں لامحالہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے‘ تو یہ ایک تباہ کن پالیسی فیصلہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بجلی کی یہ پالیسیاں اچھی طرح سے سوچی سمجھی نہیں ہیں اور اسے بنانے والوں نے آئی پی پیز کے مفادات کا زیادہ خیال رکھا ہے۔ پاکستان کو پن بجلی کے منصوبوں کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے پاس ہائیڈل سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ پیدا ہونے والی بجلی بھی سستی ہوگی لیکن حکومت پانی اور بجلی کی ضروریات کے لئے ڈیموں کی تعمیر اور تعمیر میں ناکام رہی ہے‘ جو بدقسمتی اور قابل غور و فکر بات ہے۔ مزید وقت ضائع کئے بغیر‘ ہمیں قابل تجدید توانائی کے دیگر ذرائع جیسے شمسی اور ہوا کی طرف بڑھنا چاہئے۔ پاکستان میں شمسی توانائی کی بہت گنجائش ہے جہاں سورج کئی گھنٹوں تک چمکتا رہتا ہے۔ یہ ہماری توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس وقت ملک کو آئی پی پیز کے ساتھ متعدد نکات پر دوبارہ بات چیت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں توانائی کے قومی مسئلے کو قومی ترجیح کے طور پر حل کرنے کے لئے آئی پی پیز (نجی بجلی گھروں) کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرنے چاہیئں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہماری معاشی بدحالی اور بجلی کے صارفین پر قیمتوں کا بوجھ مزید خراب شکل اختیار کر جائے گا۔