بنگلہ دیش: احتجاج و احتیاج

حالیہ ہفتوں میں بنگلہ دیش میں شدید بے چینی دیکھنے میں آئی جہاں طلبہ سرکاری ملازمتوں کیلئے کوٹہ مختص کرنے کے خلاف سراپا احتجاج رہے‘ 1972ء سے بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم رائج ہے جسکے تحت سرکاری ملازمتیں (سول سروسز) میں عہدوں کو پر کیا جاتا ہے‘حالیہ برسوں میں‘ 56 فیصد سرکاری ملازمتیں کوٹہ کی بنیاد پر مختص کی گئیں۔ یہ کوٹہ 30فیصد بنگلہ دیش کے قیام کا سبب بننے والی جنگ کے سابق فوجیوں کی اولادوں کو دیا جاتا ہے جبکہ 10فیصد خواتین اور پسماندہ اضلاع کے رہنے والوں کو‘ 5 فیصد نسلی اقلیتوں کو اور ایک فیصد کوٹہ افراد باہم معذور کیلئے مختص ہے۔عوام کے احتجاج کے جواب میں 2018ء میں حکمران جماعت عوامی لیگ نے کوٹہ سسٹم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تمام عہدوں کو میرٹ کی بنیاد پر پر کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم جون میں ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس کے بعد طلبہ نے احتجاج کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جھڑپیں کیں۔ اس جھڑپ میں ڈیڑھ سو سے زائد طلبہ ہلاک ہوئے۔ مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ڈبل گیم کھیل رہی ہیں۔ ایک طرف‘ انہوں نے کوٹہ سسٹم کو ختم کر دیا لیکن دوسری طرف‘ وہ بنگلہ دیش تحریک کے سابق فوجیوں کے اہل خانہ کو خالی آسامیوں کی تقسیم کی عوامی طور پر تعریف کرتی تھیں۔ معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ملک کی سپریم کورٹ نے سابق فوجیوں کے بچوں کے لئے کوٹہ کو کم کرکے سات فیصد کردیا تھا۔پاکستان میں اب بھی سول سروس میں 92.5  فیصد تقرریاں علاقائی کوٹہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ پچاس فیصد خالی آسامیاں اسلام آباد کے وفاقی علاقے سمیت سب سے بڑے صوبے پنجاب کے لئے مختص ہیں۔ سندھ کا حصہ اُنیس فیصد ہے‘ جسے کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر سمیت شہری علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور دیہی علاقوں میں بالترتیب سات اعشاریہ چھ فیصد اور گیارہ اعشاریہ چار فیصد حصہ ہے۔ وفاقی ملازمتوں میں خیبر پختونخوا (کے پی) کا حصہ ساڑھے گیارہ فیصد ہے جبکہ بلوچستان کا حصہ چھ فیصد ہے۔ سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) جو سال دوہزاراٹھارہ میں خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے تھے‘ اور اس اہم پیشرفت میں یہ بھی شامل تھا کہ دس سال کے لئے انہیں تین فیصد کوٹہ دیا جائے گا جبکہ وفاقی ملازمتوں میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کا حصہ بالترتیب ایک اور دو فیصد ہے۔ خواتین کے لئے مختص دس فیصد نشستوں کا حساب بھی متعلقہ صوبے یا علاقے کے کوٹے سے ہی لگایا جاتا ہے۔ملازمتوں کا کوٹہ شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کے اصول کے منافی ہے۔ آئین کے آرٹیکل ستائیس ون میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سروس میں تقرری کے اہل کسی بھی شہری کے ساتھ صرف نسل‘ مذہب‘ ذات پات‘ جنس‘ رہائش یا جائے پیدائش کی بنیاد پر ایسی کسی بھی تقرری کے معاملے میں امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا تاہم‘ اسی آرٹیکل میں حکومت کو ”کسی بھی طبقے یا علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے عہدے ریزرو کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ وہ پاکستان کی خدمت میں اپنی مناسب نمائندگی حاصل کر سکیں۔“ کوٹہ سسٹم ریاست کی جانب سے مثبت کاروائی کی ایک شکل ہوتی ہے‘ جس کے تحت حکومت سرکاری شعبے کی تعلیم اور ملازمتوں میں ان لوگوں کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنانا چاہتی ہے جو بصورت دیگر نقصان میں ہیں۔ مثبت کاروائی کی بنیاد مذہب یا علاقے‘ نسل یا صنف ہوسکتی ہے۔ بنیادی خیال یہ ہے کہ ترجیحی سلوک کے بغیر نقصان دہ پوزیشن میں موجود لوگ باقی معاشرے کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے ہیں اور اس وجہ سے انہیں سماجی سیڑھی سے مزید نیچے دھکیلا جاسکتا ہے۔کوٹہ سسٹم معروف کارکردگی‘ ایکویٹی ٹریڈ اپ سے مشروط ہے۔ ملازمت کا کوٹہ غیر مؤثر نتائج کا باعث بنتا ہے۔ کم اہل یا اہل افراد کو ضروری قابلیت یا اہلیت رکھنے والوں کی قیمت پر بھرتی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس‘ معاشی کارکردگی کا اصول یہ حکم دیتا ہے کہ نایاب وسائل اس معاملے میں‘ سرکاری شعبے کی ملازمتوں کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ کارکردگی مساوات کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس کا دوسرا سرا مساوات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارکردگی کو یقینی بنانا عام طور پر حکومتی پالیسیوں کا واحد مقصد نہیں ہوتا اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے۔ حکومت کو‘ خاص طور پر کثیر نسلی سیاست کے معاملے میں‘ خطوں اور برادریوں میں مساوی ترقی کے لئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وسیع پیمانے پر معاشرے کے تمام طبقوں کو طاقت کے استعمال میں مناسب حصہ ملے۔ ایسا کرنے میں ناکامی پسماندہ برادریوں میں احساس محرومی پیدا کر سکتی ہے‘ جو سماجی اور سیاسی طور پر خطرناک ہے۔کوٹہ سسٹم کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ تمام خطوں کو پاکستان کی سول سروس میں مناسب نمائندگی حاصل ہو چونکہ خطوں کی ترقی کی سطح اور تعلیم کے مواقع اور معیار مختلف ہوتے ہیں لہٰذا یہ خدشہ ہے کہ خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر کی جانے والی تقرریوں کے نتیجے میں کچھ علاقوں کو وفاقی خدمات سے خارج کردیا جائے۔ اس طرح ملازمتوں کے کوٹہ کو نسبتاً پسماندہ علاقوں کی نقصان دہ پوزیشن کو دور کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر ملازمتوں کے کوٹہ کا مقصد ترقی اور تعلیم کے مواقع کے لحاظ سے علاقائی عدم توازن کو دور کرنا ہے‘ تو موجودہ نظام‘ جو صوبائی نمائندگی پر مبنی ہے تو یہ اِس کا صحیح حل نہیں۔ ہر صوبے کے اندر‘ ترقی کی مختلف سطحیں‘ ملازمتیں اور تعلیمی مواقع دیکھے جا سکتے ہیں۔ پنجاب کے تمام علاقے یکساں طور پر ترقی یافتہ نہیں‘ نہ ہی بلوچستان‘ خیبرپختونخوا یا سندھ کے تمام علاقے یکساں طور پر پسماندہ ہیں۔ مثال کے طور پر ڈی جی خان ڈویژن کو لے لیجئے۔ جنوبی پنجاب میں واقع یہ پاکستان کے سب سے کم ترقی یافتہ علاقوں میں سے ایک ہے لیکن سول سروس میں داخلے کے لئے ڈیرہ غازی خان کے امیدواروں کو ترجیح نہیں ملتی اور انہیں لاہور‘ راولپنڈی اور فیصل آباد جیسے خوشحال ڈویژنوں میں رہنے والوں سے کھل کر مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب دونوں صوبائی دارالحکومتوں کوئٹہ اور پشاور سے تعلق رکھنے والوں کو فائدہ ملتا ہے۔ کوٹہ سسٹم کی صوبائی تقسیم بنیادی طور پر ناقص ہے۔ اس کے بجائے‘ عہدے صرف ایک صوبے کے پسماندہ علاقوں کے لئے مختص کئے جا سکتے ہیں۔ ملازمت کے کوٹہ میں مجوزہ اصلاحات کا مطلب یہ نہیں کہ یہ انتظام پسماندگی کا پائیدار حل پیش کرتا ہے۔ درحقیقت‘ ملازمت کے کوٹے کا موازنہ انکم سپورٹ پروگرام سے کیا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسین ایچ زیدی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)