فوری اقدامات اور فوری نتائج (گیم چینجرز) پر مبنی کہانیوں سے بھری ہوئی دنیا میں‘ کچھ لوگ اب بھی پرانی ذہنیت کے حامل ہوتے ہوئے قومی ترقی کا راز سخت محنت کو قرار دیتے ہیں اور اِس سے حقیقی خوشحالی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ یقین دہانی عارضی رجحانات سے بالاتر ہوتی ہے اور ہمیں یہ بات بھی یاد دلاتی ہے کہ حقیقی ترقی کے لئے کثیر النسلی لگن کی ضروری ہے۔ یہ تصور اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کی معدنی دولت اس کی جی ڈی پی کو نمایاں طور پر بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ بھی سچ ہی ہے کہ پاکستان کے وجود کو 76 برس ہو چکے ہیں لیکن یہ ملک عالمی معیار کے ارضیاتی سروے کے ذریعے اس کے معدنی ذخائر کی حقیقی صلاحیت کو مکمل طور پر معلوم کرنے اور سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک ایسا ملک جسے یہ بات ہی معلوم نہ ہو کہ اُس کے پاس کس قدر معدنی ذخائر ہیں وہ بھلا کس طرح اِن ذخائر سے کماحقہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے پاس تقریباً چھ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے معدنی ذخائر ہیں‘ جن میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ اُن سے تجارتی پیمانے پر پیداوارحاصل کی جا سکتی ہے اگرچہ پاکستان میں تانبے‘ کوئلے‘ زنک‘ سونے اور خام تیل کے وافر ذخائر موجود ہیں لیکن ملک کی جی ڈی پی میں معدنیات کے شعبے کا حصہ حیرت انگیز طور پر یعنی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ صلاحیت اور حقیقی شراکت کے درمیان یہ واضح فرق اس اہم شعبے کی مزید ترقی اور اِس میں سرمایہ کاری کی ضرورت کو اجاگر کر رہا ہے۔ریکوڈک منصوبے سے متعلق قانونی تنازعات کا حل پاکستان میں کان کنی کی ترقی کی ذیل میں ہونے والی کوششوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ارضیاتی مطالعات نے ریکوڈک سائٹ کے اندر سونے اور تانبے کے ذخائر کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ نئے سمجھوتے کے تحت اِس منصوبے کی ملکیت پاکستان اور بیرک گولڈ کارپوریشن (بی جی سی) کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کی گئی ہے۔ پاکستان کے پچاس فیصد حصص میں سے صوبہ بلوچستان کے پاس پچیس فیصد حصص ہیں جبکہ باقی پچیس فیصد مشترکہ طور پر تین سرکاری اداروں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ‘ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور گورنمنٹ ہولڈنگز لمیٹڈ کے پاس ہیں۔ اس از سر نو تشکیل شدہ ملکیت کے ماڈل کا مقصد قومی مفادات کو صوبائی ترقی کے ساتھ متوازی کرنا ہے‘ ممکنہ طور پر مستقبل میں بڑے پیمانے پر کان کنی کے منصوبوں کے لئے یہ ایک طرح کی مثال قائم کرنا بھی ہے۔ توقع ہے کہ سال دوہزاراُنتیس میں اِس منصوبے سے پیداوار حاصل ہونا شروع ہوجائے گی‘ ریکوڈک کی سالانہ آمدنی کا تخمینہ ایک ارب ڈالر ہے اور اس کی متوقع معاشی عمر چالیس سال ہے۔ آئندہ تین دہائیوں کے دوران یہ رائلٹی اور منافع کی تقسیم کے ذریعے بلوچستان کی معیشت میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ توقع یہ بھی ہے کہ ریکوڈک منصوبے سے ساڑھے سات ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی اور پیداوار شروع ہونے کے بعد چار ہزار طویل مدتی عہدے پیدا ہوں گے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خاقان حسین نجیب۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
‘ جس میں مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا۔ امریکی جیولوجیکل سروے نے پہلی بار 1960ء سے 1970ء تک ریکوڈک کے معدنی ذخائر کو اجاگر کیا تاہم کان کنی کے اس منصوبے کو اب بھی مالی بندش اور بنیادی ڈھانچے کی ضروریات‘ خاص طور پر معدنیات کو بندرگاہ تک لے جانے کی سہولیات چاہیئں۔ نوکنڈی سے گوادر تک کے چھ سو کلومیٹر کے مشکل راستے پر قریب چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی جو کہ ابتدائی منصوبے کی لاگت میں شامل نہیں۔ ایک زیادہ کفایتی متبادل میں کراچی پورٹ پر بلک بریکنگ ٹرمینل کو اپ گریڈ کرنا ہے‘ جس کے لئے الگ سے ایک ارب ڈالر سے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ ریکوڈک پاکستان کو کان کن ممالک کے نقشے پر لانے کا ایک موقع ہے۔ اس منصوبے کے لئے مزید مالی مدد‘ بنیادی ڈھانچے کی تخلیق اور ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے ہنگامی منصوبوں کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں اپنے اپنے معدنی شعبوں کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ سعودی ادارہ کان کنی میں زیادہ مہارت رکھتا ہے۔ ہمارے سعودی دوستوں کے پاس سرمایہ کاری کے لئے سرمایہ موجود ہے اور اگر ہم اپنے کارڈز اچھی طرح کھیلتے ہیں تو سعودی عرب ریکوڈک سے بھی زیادہ سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ کان کنی سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کا اہم شعبہ ہے۔ ایف ڈی آئی کو راغب کرنے کے علاؤہ سعودی عرب کو شراکت دار کے طور پر شامل کرنے سے علاقائی سلامتی اور استحکام کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ سرمایہ کاری کے سازگار نتائج کے حصول کا دارومدار پاکستان کی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پیشہ ور افراد پر منحصر ہے۔ بلوچستان کے دشوار گزار علاقوں کو معدنی دولت اور خوشحالی کے پھلتے پھولتے مراکز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ریکوڈک کو بین الاقوامی شراکت داری قائم کرنے‘ کمیونٹیز کو مشغول رکھنے اور مضبوط قانونی ضابطوں کا مظاہرہ کرنے کی پاکستانی صلاحیت کے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان اہداف کو اس طریقے سے حاصل کریں جس سے پچیس کروڑ پاکستانیوں کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔