بجلی بحران: حقائق

پہلی حقیقت: ایک پاور کمپنی حکومت کو 745 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فروخت کر رہی ہے جس کی وجہ سے یہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ قیمت پر بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ پاور پلانٹ چار فیصد فیکٹر کے ساتھ کام کرتا ہے‘ جو اس کی نصب شدہ پیداواری صلاحیت اور کارکردگی (جنریشن پرفارمنس)کو ظاہر کرتا ہے۔ مالی سال 2023-24ء کے دوران مذکورہ کمپنی کو صلاحیت کی ادائیگیوں کی مد میں 6.9 ارب روپے ادا کئے گئے۔ مزید برآں‘ اس کا ایک ملحقہ ادارہ 18فیصد پلانٹ فیکٹر کے ساتھ کام کرتا ہے اور 65روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کرتا ہے‘ آنکھوں میں دھول جھونکنے والا یہ خرچ بجلی کے اُن صارفین پر ڈالے گئے حیران کن بوجھ کو اجاگر کرتا ہے جن کے پاس اپنی دیگر ضروریات ترک کر کے بھاری بجلی بل ادا کرنے کے سوا دوسرا آپشن نہیں ہے۔دوسری حقیقت: بجلی بنانے والی دیگر کمپنیاں بھی ان کی حیرت انگیز کامیابی کے لئے خصوصی انعام کی مستحق ہیں۔ مالی سال 2023-24ء میں دو ملحقہ پاور پلانٹس نے بجلی کا ایک یونٹ بھی پیدا نہیں کیا‘ اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر بجلی کی پیداواری صلاحیت کی ادائیگیوں میں چوبیس
 ارب روپے وصول کئے‘تیسری حقیقت: پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری اداروں میں سے ایک کے پاس ایسے پاور پلانٹس ہیں جو تیس فیصد سے بھی کم صلاحیت پر چلتے ہیں لیکن مجموعی طور پر بیس ارب روپے یا سال کے ہر ایک دن ساڑھے پانچ کروڑ روپے وصول کر رہے ہیں۔ ناقابل یقین ہے کہ ہر دن ایک نئی لگژری گاڑی خریدنے کے لئے درکار رقم کمائی جائے‘ کون جانتا تھا کہ کوئی کاروبار اتنا منافع بخش بھی ہوسکتا ہے؟چوتھی حقیقت: جہاں تک صلاحیت کی ادائیگیوں کا تعلق ہے‘ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت پاور پلانٹس پورے مالی بوجھ کا کم از کم چالیس فیصد ہیں اور یہ سالانہ 800 ارب روپے سے زیادہ کا بوجھ ہے۔ سال کے ہر دن دو ارب روپے سے زائد کی آمدنی یقینا معمولی نہیں۔ تصور کریں کہ پورٹ قاسم سے بجلی کی قیمت 177روپے فی یونٹ ہے۔ ان میں سے ایک پلانٹ سے بجلی کی قیمت 349 روپے فی یونٹ ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان پاور پلانٹس سے بجلی سونے سے چلنے والی لائٹ سوئچ کے ساتھ آتی ہے۔پانچویں حقیقت: آئی پی پیز کا کبھی بھی آزاد آڈیٹرز نے آڈٹ نہیں کیا تاکہ ان کے اربوں روپے کے اخراجات کرنے کے دعوؤں کی تصدیق کی جا سکے۔ نیپرا کرہئ ارض پر بجلی کا سب سے غیر پیشہ ور ریگولیٹر ثابت ہوا ہے‘ جس سے ایسا لگتا ہے کہ گویا آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اور وہ نہ دیکھتے ہوئے نجی بجلی گھروں کو ریگولیٹ کر رہا ہے۔چھٹی حقیقت: حالیہ بجلی کے بل ساٹھ روپے فی یونٹ سے زیادہ آئے ہیں‘ جس میں بیس روپے فی یونٹ سرکاری چارجز بھی شامل ہیں۔ ان میں جی ایس ٹی‘ انکم ٹیکس‘ اضافی ٹیکس‘ مزید ٹیکس‘ این جے سرچارج‘ سیلز ٹیکس‘ ایف پی اے پر جی ایس ٹی‘ ایف پی اے پر آئی ٹی‘ ایف پی اے پر ای ڈی‘ ایف پی اے پر اضافی ٹیکس‘ ایف پی اے پر مزید ٹیکس اور ایف پی اے پر سیلز ٹیکس شامل ہیں۔ یہ بجلی کا بل اور ٹیکس مخفف میں کریش کورس کرنے کی طرح ہے۔ کون جانتا تھا کہ لائٹ سوئچ کو آن آف (فلپ) کرنا اتنا تعلیمی بھی ہوسکتا ہے؟ساتویں حقیقت: آئی پی پی صلاحیت کی ادائیگی سے متعلق
 ہے۔ حکومت پاکستان کے بجلی گھر پینتالیس فیصد‘ سی پیک کے بجلی گھر چالیس فیصد اور نجی بجلی گھر پندرہ فیصد کے حساب سے وصولیاں کر رہے ہیں۔پہلا مشورہ: حکومت پاکستان کو تمام معاہدوں کی ذمہ داریوں کی پاسداری کرنی چاہئے لیکن تمام دعوؤں اور ادائیگیوں کی سخت آزادانہ تصدیق بھی ہونی چاہئے۔دوسرا مشورہ: اگر حکومت فوری ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے تو اسے سرکاری چارجز میں بیس روپے فی یونٹ کمی کرنی چاہئے۔تیسرا مشورہ: نیپرا کو پروفیشنل بنایا جائے، بجلی کی چوری کا جارحانہ انداز میں مقابلہ کیا جائے، ڈی آئی ایس سی اوز کو اسٹریٹجک طور پر تبدیل کیا جائے، بلنگ اور کلیکشن انفراسٹرکچر کو جدید بنایا جائے اور غیر فعال پلانٹس کو ختم کر دیا جائے۔چوتھا مشورہ: حکومت کو بجلی کے پیداواری شعبے سے الگ ہو جانا چاہئے اور ایک ایسا کاروباری ماحول تخلیق کردینا چاہئے جس میں ایک خریدار کو بجلی فروخت کرنے والے کئی بجلی گھر ہوں گے اس سے مقابلے کی فضا پیدا ہو گی اور فی یونٹ کم قیمت پر بجلی میسر آ سکے گی جو موجودہ بحرانی صورت سے نکلنے کی واحد صورت ہے کہ سستی سے سستی بجلی خریدی جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)