عالمی منظرنامے میں ہلچل مچ چکی ہے وطن عزیز کو معیشت سمیت متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے‘ اس سب کے ساتھ ملک کا میدان سیاست مسلسل گرما گرمی کا شکار چلا آرہا ہے‘ اس ساری صورتحال کا تقاضہ یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں قائم حکومتیں بدلتے حالات میں اپنی ترجیحات کی فہرست ترتیب دیں دنیا کے حالات میں ہماری حکمت عملی کیا ہونی چاہئے‘ سیاسی منظرنامے کی گرما گرمی میں درجہ حرارت کو کس طرح حداعتدال میں لایا جائے اور ملک کو درپیش اقتصادی اور دوسرے سیکٹرز کے چیلنجوں سے کس طرح نمٹا جائے اس سارے عمل میں برسرزمین تلخ حقائق کی روشنی میں دیکھنا یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کا عام آدمی اس صورتحال میں کس طرح سے متاثر چلا آرہا ہے اور یہ کہ اس کیلئے عملی ریلیف کس طرح ممکن ہے سیاست میں اختلاف مرکز اور صوبوں میں معمول کی بات سہی تاہم اس میں اعتدال کی ضرورت و اہمیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس سب کیساتھ مرکز اور صوبوں کو دیکھنا ہوگا کہ پوری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک کے غریب شہری کو کس طرح سے ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے‘ اس مقصد کیلئے بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات اپنی جگہ قابل اطمینان اور وقت کا تقاضہ ضرور ہیں اسکے ساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ عوام کو فوری ریلیف دینے کیلئے موجودہ وسائل اور افرادی قوت کا درست استعمال یقینی بنایا جائے مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس وقت گرانی نے عام شہری کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے مہنگائی کے ساتھ انسانی صحت اور زندگی کیلئے خطرہ بننے والی ملاوٹ اپنی جگہ پریشان کن ہے اس کیلئے مارکیٹ کنٹرول کا انتظام ضروری ہے اس کے ساتھ بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہے اس ضمن میں ناگزیر ہے کہ بلدیاتی نظام کو مضبوط بنایا جائے تاکہ گراس روٹ لیول تک لوگوں کے مسائل کا حل ممکن ہو سکے اسی طرح ضرورت خدمات کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی بھی ہے‘ ضرورت بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے والے صارفین کو درپیش مشکلات کے حل کی بھی ہے‘نجی شعبے میں بڑی بڑی ادائیگیاں کرنے والے شہریوں کو تعلیم اور علاج کے لئے سہولیات یقینی بنانے کی بھی ہے‘اس سب کے لئے ناگزیر ہے کہ مرکز اور صوبوں میں حکومتیں اپنی ترجیحات کی فہرستوں کا جائزہ لیں۔