سیاست سے عوام تک

دستور میں ترمیم ہوگی یا نہیں‘ سیاسی رہنماؤں کے رابطے ملاقاتیں ظہرانے اور عشائیے کیا نتیجہ دیں گے؟اس حوالے سے صورتحال مسلسل تبدیل ہوتی چلی آرہی ہے سیاسی رابطوں اور ملاقاتوں میں سب سے زیادہ اہم حیثیت مولانا فضل الرحمن اختیار کئے ہوئے ہیں‘ حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں کیساتھ ان کی ملاقاتیں جاری ہیں‘آئین میں ترامیم کے مسودے سے متعلق بھی ہر جانب سے مختلف نوعیت کے بیانات سامنے آرہے ہیں‘ملک کی سیاست کا میدان ایک طویل عرصے سے گرما گرمی کا شکار چلا آرہا ہے‘ پارلیمانی نظام میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جس اختلاف کو پورے سسٹم کا حصہ قرار دیا جاتا ہے وہ حد اعتدال سے بڑھا ہوا ہے‘ ایسے گرما گرم ماحول میں آئینی ترامیم گزشتہ ادوار کے مقابلے میں مختلف صورتحال میں لائی جارہی ہیں‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں ایوان کے اندر اور باہر حکومت اور اپوزیشن اپنا موقف پیش کرنے کا اہتمام کرتی ہیں اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ قانون سازی کے مراحل میں دونوں جانب سے تجاویز آئی ہیں اور ان کی روشنی ہی میں فیصلے کئے جاتے ہیں‘ایوان میں خصوصی کمیٹیاں بننا اور ان میں کسی بھی معاملے پرکھل کر بات ہوتی ہے‘ اس وقت درپیش صورتحال کا اہم تقاضہ یہ ہے کہ سینئر سیاسی قیادت ایک دوسرے کے موقف کو سننے کیلئے ماحول یقینی بنائے اور اختلاف کو حد اعتدال میں رکھنے کیلئے کردار ادا کرے‘ اس اہم مرحلے پر مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اس وقت ملک کو درپیش مختلف سیکٹرز کی مشکلات میں عام شہری بری طرح سے متاثر چلا آرہا ہے‘ اس شہری کا ریلیف اکانومی کے استحکام سے جڑا ہے‘ ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ معیشت کا استحکام کسی بھی ریاست میں سیاسی استحکام سے مشروط ہوتا ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو تو سرمایہ کاروں کا حوصلہ بڑھتا ہے ایک ایسے مرحلے پر جب بے روزگاری کا گراف بڑھتا چلا جارہاہے اور پڑھے لکھے نوجوان اپنی اسناد لیکر نوکریوں کی تلاش میں ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں‘ افرادی قوت بیرون ملک بھی منتقل ہوتی چلی جارہی ہے‘ایسے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں ہی اس صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے ضرورت ہے کہ درپیش مشکلات سے نکلنے کیلئے باہمی مشاورت سے حکمت عملی اس انداز سے ترتیب دی جائے کہ اس پر عملدرآمد حکومتیں بدلنے سے متاثر نہ ہونے پائے یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب حکمت عملی کی تیاری میں مشاورت شامل ہو۔