یہ سب کس کی ذمہ داری ہے؟

سیاست کے میدان کی ہلچل قومی قیادت کے ایک دوسرے پر لفظوں  کے وار‘ ٹاک شوزمیں ایک دوسرے کی شدید مخالفت‘ سب کچھ اپنی جگہ ملک کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ اور عوام کیلئے ریلیف یقینی بنانا اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے‘ اس وقت مرکز اور صوبوں میں مختلف جماعتیں حکمران ہیں‘ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی وزیر اعلیٰ ہیں‘ سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی جبکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے وزرائے اعلیٰ اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں‘ایسے میں قومی قیادت کا انتخاب کرنے والا ووٹر مرکز اور صوبوں کی سطح پر عوامی ریلیف کیلئے ٹھوس حکمت عملی کا منتظر ہے‘ اس شہری کی کمر مہنگائی نے توڑ دی ہے‘گرانی کے دیگر عوامل کے ساتھ ایک مارکیٹ کنٹرول کا فعال کل وقتی نظام کا نہ ہونا بھی ہے‘عوام کو مصنوعی مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی اور صحت و زندگی کیلئے خطرہ بننے والی ملاوٹ کا خاتمہ  صرف منڈی کنٹرول کے موثر نظام سے جڑا ہوا ہے عوام کو بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات بھی ناگزیر ہیں‘ایسے میں اگر فنڈز نہ ہونے کی بات بھی آتی ہے تو اول تو غیر ضروری اور ضروری اخراجات کے درمیان حد کا تعین ازسر نو ہونا ضروری ہے اسکے ساتھ پہلے مرحلے میں مہیا وسائل اور افرادی قوت کا درست استعمال یقینی بنایا جائے جس کیلئے کڑی نگرانی کا موثر انتظام ضروری ہے عوام کو علاج اور تعلیم کے  شعبوں میں درپیش مشکلات کا گراف بھی سرکاری علاج گاہوں اور تعلیمی اداروں میں اصلاحات اور چیک اینڈ بیلنس کے موثر انتظام ہی سے ممکن ہے‘ اس سارے عمل میں فائلوں میں لگی سب اچھا ہے کی رپورٹس پر انحصار کرنے کی بجائے حقائق کو چاہے وہ جتنے بھی تلخ ہوں مدنظر رکھنا ہوگا ان حقائق کی روشنی ہی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی پیش نظریہ بھی رکھنا ہوگا کہ حکومتی سطح پر عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جس قدر اقدامات اٹھائے جائیں جتنے چاہے منصوبے منظور کئے جائیں اور جتنے بھی فراخ دلی کے ساتھ فنڈز مختص کئے جائیں عوام کیلئے یہ سب صرف اسی صورت قابل اطمینان ہوگا جب عام شہری کو کسی بھی سیکٹر میں عملی ریلیف کا احساس ہو صرف اعلانات سے وقتی طور پر اطمینان تو دلایا جا سکتا ہے تاہم برسرزمین نتائج اور ریلیف نہ ملنے پر عوام کیلئے سارے اقدامات اور اعلانات بے معنی رہتے ہیں۔