ملک کے سیاسی منظر نامے میں تناؤ کی شدت بڑھتی چلی جا رہی ہے‘ اس کے اثرات ایوان کے اندر اور باہر دکھائی دینے لگے ہیں‘ سیاسی بیانات کی شدت حد اعتدال سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہے‘ دوسری جانب ملک کو مختلف شعبوں میں سنگین چیلنجوں کا سامنا بھی ہے‘ ملک کے اپنے اندرونی چیلنجوں کے ساتھ بدلتا عالمی منظر نامہ بھی قومی سطح پر جامع حکمت عملی کا متقاضی ہے‘ اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ سینئر قومی قیادت برسر زمین حقائق کا ادراک و احساس کرتے ہوئے اپنا مؤثر کردار ادا کرے‘ اس میں سیاسی درجہ حرارت کو حد اعتدال میں لایا جائے اور ایسے معاملات کہ جو مل بیٹھ کر یکسو ہو سکتے ہیں‘ ان کے لئے بات چیت کی گنجائش نکالی جائے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف رائے معمول کا حصہ ہے‘ اس اختلاف کو اعتدال کے دائرے میں رکھتے ہوئے اپنا مؤقف ایوان کے اندر اور باہر عوامی اجتماعات میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سب کے ساتھ ضروری ہے کہ اہم قومی نوعیت کے امور مل بیٹھ کر یکسو کئے جائیں اس مقصد کے لئے ہونے والے اجلاسوں میں ضروری ہے کہ ایک دوسرے کا مؤقف کھلے دل کے ساتھ سنا جائے‘ ملک کے گرما گرمی کے شکار سیاسی منظر نامے میں یہ بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ملک کو معیشت کے سیکٹر میں درپیش مشکلات کے نتیجے میں عوام کو بے شمار دشواریوں کا سامنا ہے‘ کمر توڑ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بنیادی سہولتوں کا فقدان اذیت ناک صورت اختیار کئے ہوئے ہے‘ ایسے میں اصلاح احوال کی کوششیں اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں جب ان کی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے سارے کام میں وسیع مشاورت شامل ہو۔
پشاور میں ٹریفک کا مسئلہ
ٹریفک کے مسئلے تو پشاور سمیت پورے ملک بلکہ دنیا کے دیگر متعدد ممالک میں بھی چلے آ رہے ہیں ان کا حل اگر اسی طرز پر دو چار اقدامات پر اکتفا کی صورت تلاش کیا جاتا رہا تو عملی نتائج سوالیہ نشان ہی رہیں گے‘ ٹریفک کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے پلاننگ اسی صورت کامیاب ہو سکتی ہے جب اس میں سارے سٹیک ہولڈر اپنا حصہ ڈالیں۔ پشاور میں ٹریفک کے مسئلے کے ساتھ بڑا مسئلہ پیدل چلنے والوں کے لئے راستے کا ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ ذمہ دار دفاتر پہلے مرحلے میں پیدل چلنے والوں کے لئے راستوں کا انتظام کر لیں تاکہ انہیں ٹریفک کے بیچ چکر کاٹنے سے نجات ملے۔