ایس سی او کے23ویں اجلاس کا اعلامیہ

اسلام آباد میں ہونیوالے شنگھائی  تعاون تنظیم کے23 ویں اجلاس کا اعلامیہ گزشتہ روز جاری کردیاگیا ہے‘ اعلامیہ میں تنازعات کا حل طاقت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے تجویز کیا گیا ہے اس کے ساتھ اقوام متحدہ سے کہا گیا ہے کہ وہ تنازعات کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے اعلامیہ کے متن میں انسداد دہشتگردی کیلئے انسانی وسائل کی منظوری بھی دی گئی‘ ایس سی او کی رکن ریاستوں نے ڈویلپمنٹ بینک اور فنڈ بنانے کا فیصلہ بھی کیا جبکہ سیاسی‘ اقتصادی‘ تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا‘ کانفرنس نے ڈبلیو ٹی او قوانین مخالف یکطرفہ پابندیاں مسترد کرنے‘خود مختاری کے احترام اور علاقائی سا  لمیت کے عزم کا اعادہ کیا‘ وطن عزیز میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اور اس میں اہم شخصیات کی شرکت ایک اعزاز ہے‘ اجلاس میں متعدد شعبوں میں تعاون بڑھانے اور فنڈ کے ساتھ بینک کے قیام کا فیصلہ قابل اطمینان ہے‘ شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک کی آبادی اور جغرافیائی اہمیت کے حوالے سے ایک اہم پلیٹ فارم ہے‘یہ اہم تنظیم دنیا کی40فیصد آبادی کے حامل ممالک کی نمائندگی کرتی ہے‘ ان میں جوہری صلاحیتوں کے حامل ممالک  کی تعداد بھی نمایاں ہے‘ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے جو تجاویز اعلامیہ کی صورت سامنے آئی ہیں‘ضرورت ہے کہ عالمی برادری ان کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے‘ اجلاس میں امن کی خواہش کے ساتھ تنازعات کے حل کے لئے اقوام متحدہ سے کردار ادا کرنے کا کہا گیا ہے‘عالمی ادارے کو چاہئے کہ ایس سی او کے اعلامیے پر عمل یقینی بنانے  کے لئے اقدامات اٹھائے‘ اسی طرح دنیا کے اپنے آپ کو طاقتور کہنے والے دیگر ممالک کو بھی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔
کارکردگی جائزہ رپورٹ
محکمہ صحت ریجنل اور اضلاع سے کارکردگی کی جائزہ رپورٹ پیش کردی گئی ہے‘ رپورٹ کے مندرجات میں صوبے کے ہسپتالوں کے اندر60 فیصد ضروری ادویات دستیاب نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے‘ یہ اعدادوشمار بڑے شہروں کے بڑے سرکاری ہسپتالوں کے ہیں‘دیہی مراکز صحت کے لیول پر یہ شرح51فیصد بتائی جارہی ہے‘ رپورٹ میں متعدد شعبوں کی صورتحال میں بہتری بھی بتائی جارہی ہے‘ ضرورت بہت سارے معاملات میں سب اچھا کی رپورٹس برسرزمین حقائق کیساتھ ٹیلی کرنے کی ہے‘صرف ادویات ہی کم نہیں سروسز کا معیار یقینی بنانے اور مریضوں کو ریلیف دینے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘ مدنظر رکھنا ہوگا کہ جب تک ذمہ دار حکام دفاتر سے نکل کر آن سپاٹ نگرانی یقینی نہیں بناتے‘اس وقت تک حکومتی اقدامات بڑے بڑے منصوبے اور بھاری فنڈز کا اجراء ثمرآور نتائج کا حامل نہیں ہو سکتا۔