انتظار کب تک؟

ملک میں سیاست کا میدان بدستور تپ رہا ہے‘ سیاسی بیانات اور تقاریر کا سلسلہ بھی پوری گرما گرمی کیساتھ جاری ہے دوسری جانب ملک میں عام شہری کمر توڑ مہنگائی اور دیگر مسائل کے ہاتھوں پریشانی کا شکار ہو کر ریلیف کا منتظر ہے‘ اس شہری کو گرماگرم سیاسی منظرنامے میں اعدادوشمار کیساتھ اصلاح احوال کے طورپر اقتصادی اشاریے پیش کئے جاتے ہیں تاہم اس کیلئے یہ سب اس وقت تک بے معنی ہے جب تک اسے عملی ریلیف کا احساس نہیں ہوتا‘اس عام شہری کو بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث بھی متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ بھاری یوٹیلٹی بل ادا کرنے والا یہ شہری موسموں کی شدت میں بجلی اور گیس کی طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا بھی کرنے پر مجبور ہوتا ہے‘ اس شہری کو عوامی فلاح و بہبود کے بڑے بڑے اعلانات‘اقدامات اور منصوبوں کی خوشخبریاں ملتی رہتی ہیں لیکن برسرزمین حالت یہ ہے کہ اپنے مریضوں کا علاج کرانے کیلئے بھی اسے پرائیویٹ سیکٹر میں جاکر بھاری ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں‘ اسے بہت سارے میگا پراجیکٹس اور اصلاحات کے بڑے بڑے اقدامات کے باوجود اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کیلئے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں ادا کرنا پڑتی ہیں‘ اسی شہری کو ٹرانسپورٹ کے سیکٹر میں نجی شعبے پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے‘سیاسی گرماگرمی جمہوری عمل کا حصہ ضرور ہے تاہم ضروری یہ بھی ہے کہ اس گرما گرمی کو بھی ایک حد تک رکھتے ہوئے قومی قیادت عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے مل بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب دے‘ تاکہ لوگوں کو ریلیف کا احساس ہو جس کا انہیں انتظار ہے اس حکمت عملی کی تیاری میں ارضی حقائق کا احساس رکھنا ہوگا تب ہی جاکر ثمر آور نتائج کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
قابل تشویش
ذمہ دار دفاتر کا بتانا ہے کہ وطن عزیز میں بریسٹ کینسر کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے‘ اس ضمن میں اعدادوشمار کے مطابق یہ سرطان 8 میں سے1خاتون کو متاثر کر رہا ہے‘ دوسری جانب بتایا یہ بھی جارہاہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے اندر بیماری کی جلد تشخیص کی شرح بھی کم ہے‘ اس کمی کی بڑی وجوہات میں آگاہی کا موثر نظام نہ ہونا اور غربت کی شرح میں اضافہ بھی شامل ہیں‘اس ساری صورتحال کا تقاضہ تو یہ ہے کہ صوبوں کی سطح پر اس حوالے سے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دی جائے اس ضمن میں پیش نظر رکھنا ہوگا کہ سرکاری فائلوں میں اگر تشخیص و علاج کیلئے کوئی اقدامات صوبوں کی سطح پر نظر آئیں بھی تو عملی طور پر ثمر آور نتائج کا کوئی پتہ نہیں چلتا‘ضرورت ہے کہ بنیادی مراکز صحت سے لیکر بڑے تدریسی ہسپتالوں تک اس بیماری کی تشخیص‘آگہی اور علاج کا انتظام کیا جائے۔