پشاور اور اسلام آباد میں اہم امور پر بات چیت 

وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں جمعرات کو گرینڈ جرگہ ہوا جس میں گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی اور وزیر داخلہ محسن نقوی بھی شریک ہوئے جرگے میں مختلف جماعتوں کے قائدین نے بھی شرکت کی‘ جرگہ نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار علی امین گنڈا پور کو اختیارات دیئے‘ رات گئے اس حوالے سے کالعدم پی ٹی ایم سے مذاکرات ہوئے اور پختون قامی جرگہ کو3روزہ پر امن اجتماع منعقد کرنے کی اجازت دے دی گئی‘ مذاکرات میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان بھی شامل تھے‘ جمعہ کے روز اسلام آباد میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا‘ جس کی صدارت پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ نے کی‘ اس اجلاس میں تحریک انصاف‘ جمعیت علمائے اسلام‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے آئینی ترامیم کے حوالے سے اپنے مسودے پیش کئے‘ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں پہلے ہی اتفاق رائے ہے‘ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ہیجان کی جو کیفیت پیدا کر دی گئی تھی وہ کم از کم ختم ہوگئی ہے‘ وفاقی وزیر کاکہنا ہے کہ اجلاس آج پھر ہوگا‘ حکومت کا کہنا ہے کہ کوشش یہی رہے گی کہ تمام جماعتوں کاموقف سنا جائے‘ پشاور کا جرگہ اور مذاکرات ہوں یا پھر اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی کااجلاس سیاسی معاملات مل بیٹھ کر یکسو کرنے کی ہر کوشش قابل اطمینان ہی قرار دی جاسکتی ہے‘ ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز کو مختلف شعبوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اصلاح احوال کی کوششوں کو اسی صورت ثمر آور قرار دیا جا سکتا ہے کہ جب ان میں وسیع مشاورت شامل ہو‘ اور عملدرآمد کے مراحل حکومتوں کی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونے پائیں‘ملک کے طویل عرصے سے گرما گرمی کے شکار سیاسی منظرنامے میں قیادت کامل بیٹھنا سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال میں لا سکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ سیاسی استحکام بھی یقینی ہوگا اور حالات بہتری کی جانب بڑھ سکتے ہیں‘اہم قومی امور پر قومی قیادت کے مل بیٹھنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے جس کیلئے سینئر رہنماؤں کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا‘ قومی قیادت کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس وقت ملک کی اکانومی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے‘ بھاری قرضوں کے اجراء کیلئے قرض دینے والوں کی جانب سے شرائط کی فہرست بھی ساتھ آتی ہے‘اس فہرست پر عمل کرتے ہوئے ٹیکس بھی عائد ہوتے ہیں‘سبسڈی بھی واپس ہوتی ہے اور یہاں تک کہ بجلی اور گیس کے بل بھی قرض دینے والوں کی شرائط پر بنتے ہیں‘اس صورتحال کا سارا بوجھ غریب عوام پر گرانی کی صورت پڑتا ہے اور عوام کو اس مشکل سے نکالنے کیلئے معاشی استحکام ناگزیر ہے جبکہ معاشی استحکام کیلئے ضرورت سیاسی استحکام کی ہے۔