سیاسی درجہ حرارت اورترجیحات کا تعین

وطن عزیز کے گرم سیاسی ماحول میں موسم کی گرمی بارشوں کے ساتھ کم ہو رہی ہے ضرورت ہے کہ سیاست کا درجہ حرارت بھی موسم کیساتھ اعتدال پر آئے اور اہم قومی نوعیت کے معاملات یکسو کرنے کیساتھ عوام کو درپیش مسائل کے حل کی جانب بڑھا جائے‘ عوامی مسائل میں اہم مسئلہ کمر توڑ مہنگائی ہے جو اس وقت عام شہری کیلئے اذیت ناک صورت اختیار کئے ہوئے ہے اس وقت شدید گرانی کیساتھ ناجائز منافع خوری بھی عام ہے‘ کھانے پینے کی اشیاء میں مضر صحت اجزاء کی ملاوٹ کا سلسلہ بھی جاری ہے‘حلال فوڈ اتھارٹی کی کاروائیوں میں خیبرپختونخوا کے دارالحکومت اور صوبے کے دیگر علاقوں میں برآمد ہونے والی کھانے پینے کی دیگر اشیاء کے ساتھ گوشت اور کلیجی کا ملنا عوام کیلئے قابل تشویش ہے‘ فوڈ اتھارٹی کی کاروائیوں میں مردہ مرغیوں کی فروخت سے متعلق رپورٹس پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہیں‘ دوسری جانب حکومت درپیش اقتصادی صورتحال میں اصلاح احوال کیلئے اقدامات کیساتھ تفصیل میں یہ بھی بتا رہی ہے کہ خود وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے کے اعدادوشمار میں بہتری آچکی ہے اور اس وقت مہنگائی کا گراف6.9 فیصد ہے اسی طرح پٹرول کی قیمتوں میں پانچ مرتبہ کمی کی گئی ہے یہ سب اپنی جگہ قابل اطمینان سہی تاہم یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ملک کے عام شہری کو پورے منظرنامے میں ریلیف کا کوئی احسا س نہیں ہو رہا‘ اسی طرح توانائی بحران اور اسکے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات ہیں‘عام صارف  بجلی اور گیس کے بھاری بل ادا کرنے کے باوجود موسموں کی شدت میں لوڈشیڈنگ کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہے‘ترسیل کے نظام کی خرابیاں اپنی جگہ ہیں توانائی بحران کے نتیجے میں پیداواری لاگت بڑھنے سے منڈی پر مجموعی اثرات اپنی جگہ ہیں جبکہ پروڈکشن کاسٹ میں اضافے کا اثر مجموعی برآمدات پر بھی مرتب ہوتا ہے اس صورت میں بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت دشوار ہو جاتی ہے‘بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کا فقدان اس سارے منظرنامے میں عام ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ قومی قیادت درپیش صورتحال کے تناظر میں مل بیٹھ کر حکمت عملی ترتیب دے تاکہ عوام کو مشکلات کے گرداب سے نکالا جائے اس سب کے بغیر ملک کا عام شہری جو قیادت کا انتخاب اپنے ووٹ کیساتھ طویل قطاروں میں لگ کر اپنی رائے کے اظہار کے ذریعے کرتا ہے مایوس ہوتا چلا جائیگا اس شہری کے لئے بڑے بڑے اعلانات‘ خوش کن اعدادوشمار اور میگا ترقیاتی منصوبے اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتے جب تک اسے درپیش مشکلات میں ریلیف کا احساس نہیں ہوتا‘ اس ریلیف کیلئے مرکز اور صوبوں کی سطح پر ثمر آور اقدامات ضروری ہیں۔