ذمہ دار کون؟ 

سعودی عرب‘ چین اور روس کے ساتھ اقتصادی شعبے میں سرمایہ کاری اور تعاون کے دیگر معاہدوں کے امکانات کو درپیش ملکی معیشت کے تناظر میں قابل اطمینان قرار دیا جا سکتا ہے‘ ایک ایسے وقت میں جب ملک کھربوں روپے کا مقروض ہے اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد مجبوری بن چکا ہے‘ سرمایہ کاری اور صنعتی تجارتی و زرعی سرگرمیوں کا فروغ ہی مشکلات کا گراف کم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے‘ اس وقت اقتصادی شعبے میں اصلاح احوال کیلئے جاری کوششوں میں بتایا جارہاہے کہ وطن عزیز میں مہنگائی کی شرح44 ماہ کی کم ترین سطح پر آچکی ہے‘جس کی شرح6.9 فیصد بتائی جارہی ہے‘ ترسیلات زر کا حجم بھی قابل اطمینان ہے اس ضمن میں اعداد وشمار کے مطابق مجموعی طور پر ترسیلات زر میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ایکسپورٹ کی شرح بھی14 فیصد بڑھ چکی ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ریکارڈ ہوا ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر بھی زیادہ ہوئے جبکہ حصص کی منڈی بھی بلند ترین سطح پر بتائی جارہی ہے‘ اقتصادی شعبے کے اعدادوشمار پر افراط زر بھی اثر انداز ہوتاہے‘مجموعی طور پرقابل اطمینان اقتصادی اشاریے اکانومی کے درست ٹریک کی نشاندہی کر رہے ہیں‘ اس وقت جبکہ ملک کا سیاسی ماحول بدستور گرما گرمی کا شکار چلا رآہا ہے‘ اقتصادی شعبے سے متعلق بہتری کی خبریں قابل اطمینان ضرور ہیں تاہم اس سب کے ساتھ عوام کو ریلیف کا احساس نہ ہونا سوالیہ نشان ہے‘سرکاری رپورٹس کے مطابق ملک میں مہنگائی44 ماہ کی کم ترین سطح پر6.9 فیصد بتائی جارہی ہے‘ جبکہ مارکیٹ میں ہر روز اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہی نوٹ ہو رہا ہے‘ ایسا صرف اس لئے ہے کہ اضلاع کی سطح پر مہنگائی کو قابو میں رکھنے کا کوئی موثر انتظام نہیں‘انتظامیہ کی ساری کاروائیاں دوچار چھاپوں تک محدود ہیں‘کھانے پینے کی اشیاء کے معیار سے متعلق ہفتہ دس روز کے بعد انتہائی تشویشناک رپورٹ جاری ہوتی ہے تاہم اس کے بعد مکمل خاموشی چھا جاتی ہے‘ اس خاموشی سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ شاید سب اچھا ہو چکا ہے‘ انتظامی سطح پر مارکیٹ کنٹرول کے کام میں صبح کے وقت نرخنامہ جاری ہونا معمول بن چکا ہے جس پر عملدرآمد کا ہونا یا نہ ہونا کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا‘حکومت مرکز میں ہو یا کسی بھی صوبے میں‘بہتر ہوتے اقتصادی اشاریوں اور دیگر اصلاحات کو عوام کیلئے ثمر آور اسی صورت بنایا جاسکتا ہے جب برسرزمین عملی نتائج کی ذمہ دار سرکاری مشینری کو بھی فعال بنایا جائے‘اس کے وسائل اور افرادی قوت کو بھی پورا کیا جائے اور مانیٹرنگ کا سخت نظام دیا جائے۔