سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ تادم تحریر جاری و ساری ہے‘ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر نمٹانے کے لئے کوئی سنجیدہ کوششیں دکھائی نہیں دے رہیں‘ سیاسی بیانات کی گرما گرمی کے ساتھ پاور شوز بھی جاری ہیں‘ طویل عرصے سے بڑھتے سیاسی تناؤ‘ کشمکش اور تقاریر و بیانات کی صورت الفاظ کی گولہ باری نے پورے منظر نامے کو گرما رکھا ہے‘ اس سب کے ساتھ بینک دولت پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار تشویشناک صورتحال کے عکاس بھی ہیں اور متقاضی بھی کہ کم از کم اہم قومی امور سے متعلق حکمت عملی پر توجہ مبذول رکھی جائے۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان پر مجموعی قرضہ 70 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے‘ ان اعداد و شمار کا موازنہ اگر ملک کی مجموعی جی ڈی پی سے کیا جائے تو 70 ہزار ارب روپے قومی پیداوار کا 65 فیصد بنتے ہیں‘ قرضوں کے اس بڑھتے حجم سے متعلق خبر رساں ایجنسی ماہرین کی رپورٹ کے حوالے سے بتا رہی ہے کہ ملک کا ہر شہری 3لاکھ روپے کا مقروض ہے‘ اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ملک کے مجموعی قرضوں میں ماہانہ بنیاد پر 1.1 فیصد اور سالانہ 10 فیصد اضافہ ہوا ہے صرف ایک ماہ میں ملکی اور غیر ملکی قرض کا حجم 739 ارب روپے رہا۔ ذمہ دار دفاتر کے مہیا اعداد و شمار کے مطابق جولائی میں نئے مالی سال کے آغاز پر پاکستان کا قرضہ 69 ہزار 600 ارب روپے تھا‘ بات صرف قرضوں کے والیوم میں اضافے تک محدود نہیں اس وقت قرضے دینے والوں کی شرائط پر عمل درآمد بھی مجبوری ہے‘ ان شرائط کی روشنی میں لگائے جانے والے ٹیکس وہ عام شہری ادا کرنے پر مجبور ہیں کہ جو اس ساری صورتحال کے قطعاً ذمہ دار ہی نہیں‘ یہی شہری درپیش منظر نامے میں کمر توڑ مہنگائی کے ساتھ بنیادی سہولیات کے فقدان‘ خدمات کی معیار کے ساتھ عدم دستیابی‘ بے روزگاری اور توانائی بحران کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا بھی کر رہا ہے۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف رائے معمول کا حصہ ہے تاہم اس کی شدت اور حدت کو حد اعتدال میں رکھنا بھی ناگزیر ہے‘ اس سب کے ساتھ ضروری یہ بھی ہے کہ کم از کم اہم نوعیت کے قومی امور مل بیٹھ کر یکسو کئے جائیں اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کا مؤقف کھلے دل اور لچکدار رویئے کے ساتھ سنا جائے اس سب کے لئے سینئر سیاسی قیادت کو اپنا اہم اور فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔