انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات کو قرض کی شرائط کا حصہ بنا دیا ہے‘آئی ایم ایف کی دیگر شرائط کا بوجھ تو ہمیشہ کی طرح براہ راست یا بالواسطہ عوام پر ہی لاد دیا جاتا ہے تاہم بدعنوانی کا خاتمہ ایسا ٹاسک نہیں کہ عوام کو ٹول فری نمبر دے کر کہہ دیا جائے کہ اس پر اطلاع دیں‘جیسا کہ ماضی میں ہوتا بھی رہا ہے کہ ہر مشکل کی صورت میں فون نمبر دے دیا جاتا ہے یا پھر پورٹل بنا کر ذمہ داری پوری کردی جاتی ہے‘حالانکہ اس حقیقت سے کسی طور صرف نظر ممکن نہیں کہ عام شہری کسی بھی جگہ بدعنوانی کی شکایت کرکے اپنے لئے دشمنی مول لینے سے گریز ہی کرتا ہے‘اب کی بار آئی ایم ایف نے کرپشن کے حوالے سے جو مطالبہ پیش کیا ہے اس پر عمل کیلئے حکمت عملی کے خدوخال مختلف ہیں‘7ارب ڈالر قرضے کیلئے ہونے والے مطالبات میں کہا گیا ہے کہ سرکاری افسروں اور ارکان پارلیمنٹ کے اثاثے پبلک کئے جائیں‘اس کے ساتھ نیب کو زیادہ آزاد اور خودمختار بنانے کا بھی کہا جا رہاہے‘ساتھ ہی سیاسی مقاصد کیلئے بدعنوانی کے مقدمات کو ہراسانی کا ذریعہ بنانے کا سلسلہ ختم کرنے کا بھی کہا جا رہا ہے‘ اس سب کیلئے اگلے سال جون تک ایکشن پلان بنانے کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے‘حکومت کی جانب سے گزشتہ روز آئی ایم ایف کی شرائط سے متعلق جس معاہدے پر دستخط ہوئے اس میں بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے کی یقین دہانی شامل ہے‘ وطن عزیز میں کرپشن کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں‘ناجائز کمائی کو چھپانے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کرنا بھی عام ہے ماضی کے برعکس اب کی بار اگر حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ثمر آور نتائج کے حامل اقدامات اٹھاتی ہی ہے تو اس مقصد کیلئے تمام تر جدید وسائل کا استعمال بھی یقینی بنانا ہوگا جبکہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ریسورسز اور مین پاور کو بھی یکجا کرنا ہوگا ماضی کی طرح عوام کو یہ کہہ کر کہ جہاں بدعنوانی دیکھیں مطلع کریں‘ذمہ داری پوری کرنے کا وطیرہ چھوڑنا ہوگا اس سب کیساتھ ملک میں انتظامی سطح پر اصلاحات کی سخت ضرورت کا احساس کرنا ہوگا‘سرکاری اداروں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنا ہوگا جبکہ سروسز کی فراہمی کے پورے عمل کی کڑی اور محفوظ نگرانی کا بندوبست بھی ضروری ہے فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے تمام مراحل میں مدنظر رکھنا ہوگا‘کسی بھی ریاست میں حکومت کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے اقدامات اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتے ہیں جب ان کیلئے عملدرآمد کی ذمہ دار مشینری پوری طرح فعال اور کرپشن سے پاک ہو۔