ایک ایسے وقت میں جب ملک کی سیاست کا میدان تپ رہا ہے سیاسی بیانات گولہ باری کی صورت ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں ‘ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے کیلئے22 شرائط پر دستخط کر دیئے ہیں‘ نجی ٹی وی کی اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا جا رہا ہے کہ دستخط وفاقی وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک نے کئے ہیں‘ اس ضمن میں بعض نکات میں خصوصی اقتصادی زونز کی مراعات کو مرحلہ وار ختم کرنا بھی شامل ہے‘ یہ ہدف2035ءتک حاصل ہوگا جس کیلئے باقاعدہ منصوبہ بنایا جائے گا حکومت نے قرضے کے اجراءکیلئے عائد شرائط میں دسمبر2024ءتک گیس ٹیرف میں تبدیلی اور اگلے بجٹ میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کا بھی کہا ہے‘ بدعنوانی کو ختم کرنے کیلئے 2025ءتک سول سروس ایکٹ میں ترمیم بھی ہوگی‘ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قرض ادائیگی کی صلاحیت کو نمایاں خطرات لاحق ہیں ‘ملک کے سیاسی منظرنامے میں جوگرما گرمی چل رہی ہے وہ اپنی جگہ ہے‘ اس وقت تشویشناک بات ملک کی اقتصادی حالت ہے کہ جس میں قرضوں کا انبار مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے ‘ہر قرضے کی منظوری کیلئے شرائط پر مشتمل فہرست دی جاتی ہے اس فہرست پر عملدرآمد کی صورت میں بوجھ عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے‘ آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت رواں مالی سال میں1723 ارب روپے کا اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کاکہہ رہی ہے ٹیکس چھوٹ پر پابندی لگائی جارہی ہے‘ اس کے ساتھ انتظامی طور پر بھی بعض اہم اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں‘ ان انتظامات میں مختلف محکمے اور بعض اہم ذمہ داریاں صوبوں کے حوالے ہوں گی اس سارے منظرنامے میں متاثر عام شہری نے ہونا ہے جو مارکیٹ میں شدید گرانی کیساتھ گیس کے بلوں میں ہونے والا اضافہ بھی ادا کرے گا ‘یہ ساری تلخ صورتحال متقاضی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر دستخط کرنے کے ساتھ اصلاح احوال کی جانب اس طرح سے بڑھا جائے کہ آئندہ کسی قرضے کی ضرورت ہی نہ رہے اور یہ قرض پروگرام آخری ہو ‘جس کی خواہش حکومت خود بھی کر رہی ہے تاہم اس کیلئے عملی طور پر اقدامات اٹھانا ضروری ہے مالیاتی امور کیساتھ ضرورت ہے کہ انتظامی شعبے میں اصلاحات بھی یقینی بنائی جائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔