وطن عزیز کی کھربوں روپے کے قرض تلے دبی معیشت میں اب یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 7.1 کھرب روپے کا ٹیکس علیحدہ سے ہوا ہے نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بعد از خرابی بسیار فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 6 بڑی کاروائیوں کا منصوبہ بنا لیا ہے یہ منصوبہ عملدرآمد کے مراحل طے پا کر ٹیکس وصولی کے ہدف تک پہنچے گا یا نہیں یہ اپنی جگہ سوال ہے‘ایف بی آر نے ٹیکس وصولی کے لئے آزاد ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے اس ضمن میں مختلف کاروائیوں کا عندیہ دینے کے ساتھ ایف بی آر نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ میں تادم تحریر توسیع نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے وطن عزیز ایک عرصے سے اکانومی کے سیکٹر میں شدید دشواریوں کا سامنا کر رہا ہے اسی طرح طویل مرحلے سے سیاست کے میدان میں بھی ایک شدید تناؤ اور کشمکش کی صورت ہے معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے قرضے اٹھانے کا سلسلہ بھی ایک عرصے سے چل رہا ہے‘ کھربوں روپے کے قرضے اٹھانے کے کیس بھجوانے پر قرض دینے والوں کی جانب سے مطالبات اور شرائط پر مشتمل ایک طویل فہرست بھی ساتھ آجاتی ہے‘اس فہرست پر عملدرآمد کو ریاست کی مجبوری قرار دے کر اس کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا جاتا ہے‘صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ملک کا غریب اور متوسط طبقے کا شہری اپنے گھر کا کچن چلانے کے قابل بھی نہیں رہا‘مارکیٹ میں گرانی کے ساتھ اس شہری کو قرض دینے والوں کی ڈکٹیشن پر بننے والے بھاری یوٹیلٹی بل بھی ادا کرنا پڑتے ہیں حکومت کی جانب سے کارخانہ دار، جاگیر دار یا کسی بھی سیکٹر کے سرمایہ کار پر کوئی ٹیکس لگے تو اس کو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر عوام کو منتقل کر دیا جاتا ہے‘ اس کے ساتھ پیداواری لاگت میں کوئی بھی اضافہ ہو تو اس کا لوڈ بھی صارف ہی کو اٹھانا ہوتا ہے اس کے برعکس حکومت کی جانب سے کوئی بھی رعایت یا مراعات ملنے کی صورت میں اس صارف کو کسی برسرزمین عملی ریلیف کا کوئی احساس نہیں ہوتا اب بھی حکومت ٹیکس وصولی کے لئے کسی بھی سیکٹر میں کوئی مہم چلاتی ہے تو اس ادائیگی کو بھی صارفین ہی کے کھاتے میں ڈالا جائے گا‘ ضرورت ہے کہ فیصلہ ساز دفاتر اس حوالے سے پورے سسٹم اور اس کے آپریشن کا مطالعہ کریں اور عوام پر سے بوجھ کم کرنے کے ساتھ ہر قسم کی مراعات وسہولیات کا فائدہ عام صارف تک پہنچانے کے لئے حکمت عملی ترتیب دی جائے۔