غذائی قلت، مستقل عالمی چیلنج بن گیا ہے جس سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد متاثر ہیں اور جس کے صحت، معاشی پیداوار اور انسانی ترقی کے لئے تباہ کن نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کی تکنیکی اور زرعی ترقی کے باوجود‘ غذائی قلت قوموں کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے‘ خاص طور پر ترقی پذیر دنیا میں۔ اسے ٹرپل سی بحران بھی کہا جاتا ہے یعنی آب و ہوا کی تبدیلی، تنازعات، اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے معمولات زندگی کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے یہ مسئلہ مزید بڑھ گیا ہے اور جس سے خوراک کی تقسیم میں منظم نااہلیاں اجاگر ہو رہی ہیں چونکہ عالمی توجہ غذائی تحفظ سے پائیدار غذائی نظام کی طرف منتقل ہو رہی ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے کمزور ممالک میں غذائی قلت کی وجوہات، نتائج اور ممکنہ حل کو سمجھنا ضروری ہے۔عالمی سطح پر پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا ڈیڑھ کروڑ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما متاثر ہے۔ دنیا کے بائیس فیصد بچے لاغرپن سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ تعداد غریب ترین ممالک میں زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر برونڈی اور لیبیا میں پانچ سال سے کم عمر کے آدھے سے زیادہ بچے خاطرخواہ نشوونما سے محروم ہیں۔ ضروری غذائی اجزاءکی کمی، خاص طور پر حمل سے لے کر بچے کی دوسری سالگرہ تک کے پہلے ایک ہزار دن اہم ہوتے ہیں کیونکہ اس عرصے کے دوران دماغ کی نشوونما ہوتی ہے۔ سائنس میں حالیہ پیش رفت نے توجہ صرف کیلوری فراہم کرنے سے اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز کی ہے کہ غذا مائیکرو نیوٹرینٹس سے بھرپور ہونی چاہئے۔ وٹامنز اور معدنیات جو مناسب نشوونما کے لئے اہم ہوتے ہیں بچوں کی نشوونما کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ جدید طریقوں، جیسا کہ مائیکرو بائیوم ڈائریکٹڈ کمپلیمنٹری فوڈز (ایم ڈی سی ایف)‘ آنتوں کی صحت بہتر بنانے اور غذا¿ کے جذب کو بڑھا کر غذائی قلت کو زیادہ جامع طور پر حل کرنے کو ضروری گردانتے ہیں۔ عالمی سطح پر غذائی قلت کے محرکات پیچیدہ اور کثیر الجہتی ہیں اگرچہ غربت ایک بنیادی عنصر ہے لیکن یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ جنگ اور تنازعات لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرتے ہیں اور لوگوں کو غذائی عدم تحفظ کا شکار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ سب صحارا افریقہ اور مشرق وسطیٰ جیسے خطوں میں تنازعات نہ صرف خوراک کی فراہمی کو تباہ کرتے ہیں بلکہ زراعت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی خشک سالی، سیلاب اور دیگر انتہائی موسمی واقعات کی تعداد اور شدت میں اضافہ‘ ان مسائل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے، جس سے خوراک کا نظام مزید عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔ایک اور اہم عنصر خوراک کی تقسیم میں عدم مساوات ہے۔ دنیا میں ہر کسی کو کھانا کھلانے کے لئے کافی خوراک پیدا ہوتی ہے لیکن بہت سے لوگ اب بھی غیر مساوی رسائی، ناقص بنیادی ڈھانچے اور نظام کی نااہلی کی وجہ سے بھوکے رہتے ہیں۔ تیزی سے شہروں کی جانب نقل مکانی سے غذائی عادات تبدیل ہوتی ہیں اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں شکر اور چربی میں زیادہ پروسیسڈ غذائیں زیادہ عام ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے غذائی قلت کے ساتھ موٹاپا بڑھ رہا ہے۔ پاکستان اس بات کی ایک شاندار مثال ہے۔ پاکستان کے لئے غذائی قلت اہم چیلنج ہے جس سے تقریباً نصف آبادی متاثر ہے۔ ایف اے او کی سال دوہزارتیئس کی اسٹیٹ آف فوڈ ان سکیورٹی اینڈ نیوٹریشن رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اُنیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور 43 فیصد آبادی کو معتدل یا شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ 83فیصد پاکستانی بنیادی غذائی ضروریات کو پورا کرنے والی خوراک کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہ صورتحال اس حقیقت سے مزید خراب ہوتی ہے کہ پاکستان کا غذائی نظام زیادہ متنوع اور غذائیت سے بھرپور غذا¶ں کی قیمت پر بنیادی فصلوں کی پیداوار‘ بالخصوص گندم، چاول اور گنے کی فصلوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
پاکستان کا زرعی شعبہ تاریخی طور پر پیداوار پر توجہ مرکوز رکھتا ہے اگرچہ ملک اناج کی پیداوار میں کافی حد تک خود کفیل ہے لیکن پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا چالیس فیصد بچے ناقص غذائی تنوع کی وجہ سے نشوونما سے محروم ہیں۔ غذائی قلت سے نمٹنے کے لئے کثیر الجہتی نکتہ¿ نظر اپنانے کی ضرورت ہے جو خوراک کی پیداوار میں اضافے سے زیادہ ہو۔ پائیدار اور آب و ہوا سے متعلق سمارٹ زرعی طریقوں، غذائی تنوع اور بہتر سماجی تحفظ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک جامع فوڈ سسٹم اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ (ایم این ایف ایس آر) کو پیداوار پر مرکوز توجہ سے ایک ایسے ماڈل کو اپنانا چاہئے جس میں معیاری خوراک تک پائیدار رسائی حاصل ہو سکے۔ اس میں غذائیت کے حوالے سے حساس زرعی طریقوں کو ترجیح دینے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن کے ذریعے سماجی و اقتصادی رسائی کو بہتر بنانے کے لئے ملک کی فوڈ سکیورٹی پالیسی پر نظر ثانی بھی شامل ہونی چاہئے۔غذائی قلت اور غذائی عدم تحفظ نہ صرف خوراک کی پیداوار بلکہ اس کی مساوی تقسیم، پائیدار طریقوں سے رسائی اور مو¿ثر حکمرانی جیسے چیلنجز بھی رکھتا ہے۔ یہ وقت عمل کا ہے۔ پاکستان سمیت عالمی برادری کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ غذائی قلت کی وجہ سے نہ صرف صحت کا بحران پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ اپنی ذات میں سماجی، معاشی اور ماحولیاتی بحران بھی رکھتا ہے۔ اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے تمام شعبوں کو مربوط اور پہلے سے زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔