جرائم کے اَسباب

جرائم معاشرتی تانے بانے میں خلل ڈالتے ہیں اور امن و استحکام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان عوامل کو سمجھنا جو افراد کو مجرمانہ طرز عمل اپنانے کی طرف لے جاتے ہیں بہت ضروری ہے۔ کراچی، سکھر اور لاڑکانہ کی سینٹرل جیلوں میں ڈیڑھ سو قیدیوں سے بات چیت (سروے) میں مجرمانہ رجحانات اور سماجی و معاشی حالات کے درمیان گہرا تعلق سامنے آیا ہے۔ اِس سروے سے حاصل نتائج اس مؤقف کو ثابت کر رہے ہیں کہ جرم ایک فطری خصوصیت نہیں بلکہ معاشرتی دباؤ اور عدم مساوات کا نتیجہ ہے۔جرم وسیع پیمانے پر ایسا عمل یا کوتاہی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو معاشرتی اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہو۔ ماہر سماجیات اکثر اسے گمراہ کن طرز عمل کے طور پر بھی بیان کرتے ہیں جو کمیونٹی (سماج) کی ہم آہنگی میں خلل ڈالتا ہے۔ پاکستان میں، پاکستان پینل کوڈ کے تحت ہر جرم کو قانونی طور پر کسی بھی قابل سزا عمل یا کوتاہی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جرائم کے بارے میں نظریات تین اہم اجزأ پر زور دیتے ہیں: ذہنی ارادہ‘ جو جرم کے پیچھے نفسیاتی محرک کی عکاسی کرتا ہے۔ ایکٹس ریوس، جرم کا ارتکاب کرنے کا جسمانی عمل اور قانون کی خلاف ورزی، جہاں اعمال طے شدہ معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتے ہیں۔ یہ اجزأ مجرمانہ طرز عمل کو تشکیل دینے والے سماجی و اقتصادی حقائق کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ کراچی، سکھر اور لاڑکانہ کی جیلوں میں قیدیوں میں کئے گئے سروے میں سماجی، معاشی اور آبادیاتی عوامل کی بنیاد پر جرائم کے مختلف نمونے اجاگر ہوئے۔ دو کروڑ (بیس ملین) سے زائد آبادی اور متنوع نسلی ساخت کے ساتھ کراچی میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ سٹیزن پولیس رابطہ کمیٹی (سی پی ایل سی) کے مطابق سال دوہزارچوبیس کے آخری پانچ ماہ میں کراچی میں 26 ہزار 491 جرائم ریکارڈ کئے گئے۔ اس عرصے کے دوران 58 ہزار 771 گاڑیاں اور 7 ہزار 890 موبائل فون چوری یا چھینے گئے۔ قتل کے 212 واقعات، بھتہ خوری کے 33 واقعات اور اغوا برائے تاوان کے 10 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس کے برعکس سکھر اور لاڑکانہ میں جرائم کی جڑیں اکثر دیہی سماجی و ثقافتی حرکیات سے جڑی ملی۔ لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں گزشتہ پانچ ماہ کے دوران تقریباً 9510 مجرمانہ واقعات رپورٹ ہوئے جن میں لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، شکارپور، کشمور، جیکب آباد، سکھر، خیرپور اور گھوٹکی شامل ہیں۔ تقریباً 350 افراد کو قتل کیا گیا، اکثر ذاتی دشمنی اور کمیونٹی جھڑپوں کے نتیجے میں، جبکہ 318 افراد، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں، کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ اغوأ برائے تاوان کے 28 واقعات رپورٹ ہوئے حالانکہ اس طرح کے بہت سے واقعات رپورٹ نہیں کئے جاتے کیونکہ متاثرین اکثر مدد کے لئے پولیس سے رابطہ کرنے کے بجائے مقامی تعلقات اور اثر و رسوخ پر انحصار کرتے ہیں۔قتل جیسے پرتشدد جرائم میں ملوث بہت سے قیدیوں نے حل طلب خاندانی تنازعات اور دیرینہ دشمنی کو محرک قرار دیا۔ انتقام اور جھگڑے، جو مقامی روایات میں گہری جڑے ہوئے ہیں، نے مجرمانہ رجحانات کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ نتائج اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ افراد پیدائشی مجرم نہیں ہوتے بلکہ سماجی و اقتصادی حالات مجرمانہ روئیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ غربت، ناخواندگی، بے روزگاری اور سماجی عدم مساوات جیسے عوامل جرائم کے محرکات ہیں۔ جب معاشرتی ڈھانچے بنیادی ضروریات یا مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو، افراد زندہ رہنے کے لئے غیر قانونی طرز عمل کا سہارا لیتے ہیں۔ اس سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جرائم ایک سماجی پیداوار ہے جو سماجی، اقتصادی اور آبادیاتی خصوصیات کی شکل میں ہوتے ہیں اور اِن مسائل کو حل کرنے کے لئے کثیر جہتی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور سماجی تحفظ کو یقینی بنانے سے معاشرے میں پائی جانے والی مایوسی کم ہو سکتی ہے اور اِس سے جرائم بھی بتدریج کم ہوتے چلے جائیں گے۔ اِسی طرح خواندگی کو فروغ دینا اور رجعت پسند اصولوں کو چیلنج کرنا جرائم کے عام ہونے (سوشلائزیشن کے چکر) کو توڑ سکتا ہے۔ بہتر پولیسنگ اور تنازعات کے فوری حل سے جرائم کی روک تھام ممکن بنائی جاسکتی ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں دشمنی کی اپنی ایک تاریخ ہوتی ہے۔جرائم اور مجرمانہ طرز عمل معاشرے کے سماجی و اقتصادی حقائق کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
 (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عرفان علی صامو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
 غربت، عدم مساوات اور مجرمانہ روئیوں کو برقرار رکھنے والے ثقافتی اصولوں سے نمٹنے کے ذریعے، معاشرہ ایک ایسا ماحول تشکیل دے سکتا ہے جہاں افراد غیر قانونی اقدامات کا سہارا لئے بغیر پھلتے پھولتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ صرف جرائم کی علامات پر توجہ دینے کے بجائے جرم کی بنیادی وجوہات پر توجہ دی جائے۔ صرف سماجی و اقتصادی مساوات اور انصاف کو فروغ دے کر ہی ہم امن اور استحکام کو بحال کرنے کی اُمید کر سکتے ہیں۔