ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں دوبارہ قابل استعمال راکٹ خلاؤں میں آمدورفت کیلئے استعمال ہوں۔ مشینیں انسانوں سے زیادہ تیزی سے سوچتی ہیں اور سرمایہ کار کمپنیاں نہ صرف اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں بلکہ یہ ہماری زندگی کے طور طریقوں کو بھی تبدیل کرتی ہیں یا ان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ بات تصور نہیں رہی کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں‘ جو خطرات مول لینے‘ جرأت مندانہ خیالات اور جدت طرازی پر مبنی ثقافت سے تشکیل پاتی ہے۔ وقت کے ساتھ امریکہ کی دولت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ سال میں سترہ کھرب ڈالر تھی اور اِس بات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دولت کا یہ اضافہ قیاس آرائیوں‘ مصنوعی ذہانت کی تشہیر اور غیر پائیدار قرضوں کی وجہ سے ہوا ہے اگرچہ یہ خدشات بے بنیاد نہیں لیکن سچائی اپنی جگہ موجود ہے کہ امریکہ کی اقتصادی اور تکنیکی طاقت کی جڑیں خطرات قبول کرنے‘ جدت کے فروغ اور بڑے خواب دیکھنے جیسی خواہشات سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ صرف امریکہ کے ناقدین کیلئے سبق نہیں بلکہ یہ پاکستان جیسے ممالک کیلئے بھی سبق ہے جو دہائیوں کے جمود کا شکار ہیں۔ امریکہ کے برعکس پاکستان جرأت مندانہ فیصلہ سازی‘ رسک لینے اور جدت سے دور رہا ہے اور اس کے نتائج بھی بڑی حد تک واضح ہیں کہ معیشت بحران کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پر مستقل انحصار کیا جا رہا ہے‘ سماجی ترقی تعطل سے دوچار ہے اور تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں پاکستان ترقی کے مواقعوں
سے محروم ہے۔ امریکہ میں جدت کے کلچر کی بنیاد اس یقین پر رکھی جاتی ہے کہ ناکامی اختتام نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا ذریعہ ہے۔ گزشتہ تیس برس میں‘ اس تصور (اقدار) نے امریکہ کو ٹیکنالوجی میں عالمی طاقت (رہنما) بنایا ہے اور ایسی کمپنیاں تشکیل دی گئی ہیں جنہوں نے صنعتوں کی نئی تعریف کی ہے۔ گوگل نے معلومات تک رسائی کو جمہوری بنایا ہے اور بنیاققدی طور پر ہمارے سرچ‘ سیکھنے اور رابطہ قائم کرنے کے طریقے کو تبدیل کردیا ہے۔ ٹیسلا نے نقل و حرکت اور توانائی کے شعبوں میں انقلاب برپا کیا ہے‘ جس سے پائیدار نقل و حرکت کی طرف منتقلی ممکن ہوئی ہے۔ اوپن اے آئی مصنوعی ذہانت کی رہنمائی کر رہا ہے‘ جو صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم اور آٹومیشن میں تبدیلی کے امکانات پیدا کر رہا ہے۔ مائیکروسافٹ نے کام کی جگہ اور ذاتی کمپیوٹنگ میں انقلاب برپا کیا تو ایپل نے آئی فون کے ساتھ صارفین کی ٹیکنالوجی کی نئی تعریف کی‘ ایمازون نے ای کامرس اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں انقلاب کی قیادت کی اور این ویڈیا کے جی پی یو نے اے آئی‘ گیمنگ اور سائنسی کمپیوٹنگ کے شعبوں میں بے مثال ترقی کی ہے۔ یہ دیکھ کر تعجب نہیں ہوتا کہ یہ کمپنیاں سالانہ کھربوں ڈالر کما رہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان اوسط درجے اور جمود کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ گزشتہ تیس برس کے دوران‘ ملک میں ایک ایسے ماحول کا فروغ نہیں ہو پایا جو جدت پر مبنی ہو اور جس میں انٹرپرینیورشپ اور رسک لینے کے ذریعے ترقی کی جا سکے۔ بیوروکریسی کی نااہلی‘ تعلیم اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی کمی اور ناکامی کے گہرے خوف نے پاکستان کی ترقی (آگے بڑھنے کے عمل) کو روک رکھا ہے۔ حکومت کی توسیع اور سرکاری شعبے کے غلبے نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ سرکاری ادارے غیر مؤثر طریقے سے کام کرتے ہیں‘ نجی مسابقت کو بڑھاتے ہیں اور قومی وسائل کو ضائع کرتے ہیں اگرچہ فنڈز کو سرکاری شعبے کے نقصانات کو پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن نجی شعبہ خاص طور پر جدید‘ ٹیکنالوجی سے لیس سٹارٹ اپس سرمائے کی کمی کا شکار ہیں۔ پاکستان ایک ایسی پالیسی اور ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے میں بھی ناکام رہا ہے جو دولت پیدا کرے۔ ٹیکسوں کی بلند شرح کاروباری ترقی کو روکے ہوئے ہے اور یہاں تک کہ ٹیکس وصولی کا مقصد بھی حاصل نہیں ہو رہا جہاں دنیا نے ڈیجیٹلائزیشن کو اپنایا وہیں پاکستان پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان زرعی اجناس اور روایتی صنعتوں جیسے ٹیکسٹائل‘ سیمنٹ‘ چینی اور کھاد پر حد سے زیادہ انحصار کر رہا ہے‘ جو اپنی معیشت کو متنوع بنانے یا اپنے نوجوانوں کی صلاحیت اور ٹیکنالوجی خواندہ آبادی سے فائدہ اٹھانے میں ناکامی کی اشکال
ہیں۔ ان پالیسیوں کی ناکامیوں کے نتائج واضح ہیں: ایک جمود زدہ اور غیر پیداواری معیشت جو نئی دنیا میں مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی‘ بڑھتا ہوا برین ڈرین اور ایک ایسا ملک جو جدت اور ترقی کی عالمی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ جمود کے اس چکر سے بچنے کیلئے پاکستان کو امریکہ اور بھارت جیسی معیشتوں سے سبق سیکھنا ہوگا جن کی جی ڈی پی 1990ء تک پاکستان کے مقابلے میں کم تھی۔ ہمیں 2025 ء میں پاکستان کیلئے ایک جرأت مندانہ وژن کی ضرورت ہے جس کا مقصد پھلتا پھولتا ایکو سسٹم تخلیق کرنا ہو۔ اس وژن میں ٹیک اسٹارٹ اپس اور اسکیل ایبل کاروباروں کی مدد کیلئے 100 ارب روپے کا قومی جدت فنڈ قائم کرنا شامل ہونا چاہئے۔ کاروباری ترقی کی حوصلہ افزائی کیلئے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کم کی جائے جبکہ ٹیکس وصولی کے نظام کو آسان بنایا جائے۔ بڑے شہروں کی طرح اضلاع کی ترقی میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ تعلیمی اداروں‘ صنعت اور کاروباری افراد کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے سرمائے کی منڈیوں کو مضبوط بنانا‘ امید افزا کاروباری اداروں کیلئے فنڈز تک رسائی یقینی بنانا اور قومی ڈیجیٹل تبدیلی کی حکمت عملی کا آغاز ضروری ہے۔ پاکستان امریکہ اور بھارت جیسے ممالک کے نقش قدم پر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم یہ سفر آسان نہیں ہوگا جیسا کہ امریکہ نے کر دکھایا ہے کہ بڑی کامیابیاں اکثر بدترین خیالات سے جنم لیتی ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سیّد اسد علی شاہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)