عورت کو کیا چاہئے

پاکستان میں ہر سال بے شمار خواتین ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی ہیں اور اپنے کیریئر اور گھریلو ذمہ داریوں کو بھی بغیر تعطل نبھا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود، خواتین کی خدمات کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور قومی ترقی میں ان کے کردار کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ خواتین کی محنت اور قربانیوں کو شاذ و نادر ہی خاطرخواہ اہمیت ملتی ہے، جس کی وجہ سے وہ معاشی اور جذباتی انحصار کے سائے میں پھنسی رہتی ہیں اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کچھ خاص نہیں ہوتا۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2023-24ء کے مطابق ”پاکستان میں بے روزگار افراد کی سب سے زیادہ تعداد پندرہ سے چوبیس سال کی عمر کے درمیان ہے اور بے روزگار افراد کی دوسری سب سے بڑی عمر پچیس سے چونتیس سال کے درمیان ہے۔ ان زمروں میں، مردوں میں بے روزگاری کی شرح دس فیصد ہے لیکن اس کے بالکل برعکس، خواتین کی بے روزگاری کی شرح بالترتیب اکتالیس فیصد ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں کہ جن سے سنگین صورت حال ظاہر ہو رہی ہے بلکہ یہ اعداد و شمار نہ صرف خواتین کی کام تلاش کرنے میں ناکامی کو ظاہر کر رہے ہیں بلکہ یہ پوشیدہ مزدوری کو بھی ظاہر کرتے ہیں جو خواتین کو قدیم زمانے سے درپیش ہے اور جسے کبھی بھی حقیقی معاشی پیداوار کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر، مذکورہ اقتصادی سروے کے مطابق، دیہی لیبر فورس 4 کروڑ 85 لاکھ ہے جبکہ شہری لیبر فورس 2 کروڑ 32 لاکھ ہے۔پاکستان کے دیہی علاقوں کے کسی بھی حصے کا دورہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ عورتیں صبح سے شام تک کھیتوں میں پودے لگانے سے لے کر کٹائی تک اور مویشیوں کی دیکھ بھال میں عملاً مصروف رہتی ہیں۔ ان کی بے پناہ خدمات کے باوجود، ان کی محنت کو کبھی بھی مالی قدر میں تبدیل نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاؤہ، دیہی عورتیں اپنے کنبوں کے لئے پانی لانے روزانہ میلوں پیدل چلتی ہیں، جانوروں کے لئے چارہ کاٹتی ہیں اور لے جاتی ہیں، کھانا پکاتی ہیں اور صاف کرتی ہیں اور یہاں تک کہ مٹی اور مٹی کے گھروں کی دیکھ بھال کا کام بھی خود کرتی ہیں۔ ان عورتوں کے روزمرہ کے کام کے بغیر، زرعی پیداوار میں نمایاں کمی آئے گی۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ مذکورہ اقتصادی سروے میں ان خواتین کا حساب نہیں لیا گیا جو بغیر معاوضے کے کام کرتی ہیں۔ ان کی مزدوری معاشی لحاظ سے پوشیدہ رہتی ہے، جس کی وجہ سے استحصال کا ایک شیطانی چکر جاری رہتا ہے۔ یہ شیطانی چکر کھیتوں میں ختم نہیں ہوتا۔ یہ ہر جگہ نقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ غیر رسمی شعبوں میں بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے۔ بڑے پیمانے پر پیداوار، غیر رسمی اور ذیلی شہری فیکٹریوں میں، خواتین سے یکساں گھنٹوں کام لے کر اُنہیں کم اجرت دی جاتی ہے۔ چھوٹے نجی اسکولوں میں خواتین اساتذہ اپنے مرد ساتھیوں کے مقابلے میں کم کما رہی ہیں۔ گھریلو ملازمہ کے طور پر خواتین کئی گنا کم لاگت پر کام کرتی ہیں۔ ایک مرد درزی کے مقابلے ایک خاتون درزی کی خدمات کی قیمت کم ہوتی ہے۔ یہ چھوٹی سی روزمرہ کی مثال ہے جس سے ہمارے معاشرے میں صنفوں کے درمیان موجود خوفناک اجرت کا فرق ظاہر ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2024ء میں پاکستان 146 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر ہے کیونکہ ہماری پچاس فیصد آبادی نظرانداز ہے۔ یہ فطری استحصالی ہے جس سے مسائل وقت کے ساتھ مزید بڑھ رہے ہیں۔ ماحولیاتی عوامل جیسا کہ صرف خواتین کے لئے الگ جگہوں کی عدم موجودگی، واش رومز، نقل و حرکت کی سہولیات اور حفاظتی خدشات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا جس سے مشترکہ طور پر، ہمارے ملک میں خواتین کی مجموعی فلاح و بہبود کی پریشان کن تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا  ہے اور خواتین کے پرتشدد حالات کا سامنا کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس مناسب مالی وسائل تک رسائی نہیں۔ جیسا کہ ہم نئے سال میں قدم رکھ چکے ہیں، فیصلہ سازوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بلا معاوضہ مزدوری اور اجرت کے فرق جیسے مسائل کو حل کریں۔ خواتین کے حالات کار کو بہتر بنایا جائے۔ اُن کی محنت اور کوششوں کا مساوی معاوضہ ملنا چاہئے۔ ملک کے موجودہ صنفی نظام میں چھوٹی سی ایڈجسٹمنٹ بھی خواتین کی فلاح و بہبود میں نمایاں اضافہ کرسکتی ہے اور اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو اِس سے مجموعی قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر بینش فاطمہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)