پرامن دفاع کا حق

امریکہ نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی صلاحیت کے حصول کیلئے ایک بار پھر پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی ہیں‘ یہ ایک ایسا اقدام ہے جسے بہت سے مبصرین واشنگٹن کی منتخب اور بعض اوقات متضاد جوہری عدم پھیلاؤ کی پالیسی کی ایک اور مثال کے طور پر دیکھتے ہیں اگرچہ امریکہ عالمی جوہری روک تھام کی وکالت کرتا ہے لیکن وہ واحد ایسا ملک ہے جس نے جنگ میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے‘ یہ تفاوت اس کے نقطہ نظر کی شفافیت اور مستقل مزاجی پر سوال اٹھاتا ہے۔ ان تادیبی اقدامات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی خودمختاری کے تحفظ اور اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے ہمسایہ ممالک اور ان کے علاؤہ بھی مضبوط اقتصادی اور سفارتی شراکت داری کی تلاش کرنی چاہئے۔پاکستان ان چند جوہری صلاحیت کے حامل ممالک میں شامل ہے جنہیں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) جیسے عالمی مانیٹرنگ اداروں نے تسلیم کیا ہے اور جامع جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدے (سی ٹی بی ٹی) جیسے معاہدوں پر اپنے مؤقف کے ذریعے بین الاقوامی اصولوں کی تعمیل کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ نے بار بار اسلام آباد کو پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے اور جوہری و میزائل معاملات میں مساوی سلوک کے اصول کو نظر انداز کیا ہے۔ دریں اثنا‘ واشنگٹن اپنے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل نظام کو جدید بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے‘ جس سے جوہری عدم پھیلاؤ کے اپنے مقاصد کی ساکھ ختم ہو رہی ہے۔پاکستان کی دفاعی حکمت عملی‘ جس میں جوہری روک تھام اور اس سے متعلق میزائل ٹیکنالوجی شامل ہیں اس کی سلامتی سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ علاقائی طاقتوں سے گھرا اور سرحد پار سے مسلسل خطرات کا سامنا کرنیوالا پاکستان جنوبی ایشیا میں تزویراتی توازن برقرار 
رکھنے کیلئے قابل اعتماد مزاحمت کو ضروری سمجھتا ہے۔ وسیع البنیاد بین الاقوامی اتفاق رائے کے بغیر یک طرفہ عالمی پابندیاں عائد کرکے امریکہ ہتھیاروں پر قابو پانے کی اجتماعی کوششوں کو کمزور کر رہا ہے اور جبر اور بداعتمادی کے ماحول کو ہوا دے رہا ہے۔پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے علاوہ‘ پاکستان کے زیادہ سے زیادہ اقتصادی لچک کے راستے میں ان ممالک کے ساتھ شراکت داری کو وسعت دینا شامل ہے جو باہمی مفادات رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں چین ہے جو پائیدار اتحادی ہے جس کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تاریخی تعلقات ہیں۔ اس شراکت داری کی عملی مثال چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے جو چین کے گلوبل بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت ایک اہم منصوبہ ہے۔ سی پیک کے ذریعے پاکستان پہلے ہی سڑکوں‘ بندرگاہوں اور بجلی کے منصوبوں سمیت بنیادی ڈھانچے کی تعمیروترقی کر چکا ہے۔ یہ منصوبے پاکستان کی لاجسٹک اور توانائی کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں اور مضبوط صنعتی ترقی کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں۔ چین‘ اپنی وسیع مینوفیکچرنگ بیس کے ساتھ‘ تیزی سے نچلے درجے اور درمیانے درجے کی مینوفیکچرنگ کو ایسے ممالک میں منتقل کرنے پر غور کر رہا ہے جو وافر اور کم خرچ لیبر پیش کرتے ہیں‘ اگرچہ پاک چین تعاون ناگزیر ہے لیکن پاکستان کو اپنے علاقائی روابط کو بھی وسعت 
دینی چاہئے۔ایران کے ساتھ تجارت بڑھانے سے بھی پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے‘ خاص طور پر توانائی کے شعبے میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ایران تیل اور گیس کی محفوظ اور سستی فراہمی کی پیش کش پہلے ہی کر چکا ہے جبکہ پاکستان ایران کی برآمدات کیلئے اہم بنیادی ڈھانچہ فراہمکرسکتا ہے۔ دوطرفہ تجارت کو مضبوط بنانے سے دونوں ممالک کو امریکی پابندیوں سے بچانے میں مدد ملے گی۔ روس نے بھی پاکستان کو دفاعی تعاون‘ توانائی کے منصوبوں اور ٹیکنالوجی کی فراہمی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ روس کے وسیع وسائل اور ترقی یافتہ صنعتیں پاکستان کے ٹیکسٹائل‘ زرعی اور بڑھتے ہوئے آئی ٹی شعبوں کو بہتر بنائیں گی۔ اس طرح کے تعاون سے مغربی منڈیوں اور سرمایہ کاری پر انحصار کم ہوجائیگا اور معاشی ترقی و استحکام کیلئے متبادل راستے پیش ہوں گے‘امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے‘ پاکستان کو خود انحصاری کو فروغ دینے کے اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ چین‘ ایران‘ روس‘ ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنائیں جائیں تاکہ تجارت کو وسعت دی جا سکے اور متبادل سپلائی چین تیار کی جا سکے۔ دفاع‘ توانائی‘ مینوفیکچرنگ اور ایگری ٹیک میں تحقیق اور ترقی میں بھاری سرمایہ کاری کی جائے جس سے درآمدی ٹیکنالوجیوں پر انحصار کم ہوگا۔ نئے اتحاد کی تلاش کرتے ہوئے پاکستان کو مغرب کے ساتھ رابطے استوار و بحال رکھنے چاہئیں۔ تعلیم‘ انٹرپرینیور شپ اور انفراسٹرکچر کی ترقی کو فروغ دے کر پاکستان کی متحرک اور نوجوان افرادی قوت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہنرمند افرادی قوت طویل مدتی معاشی ترقی کو برقرار رکھ سکتی ہے اور بیرونی دباؤ کے خطرے کو کم کر سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر امتیاز خان لودھی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)