تین دہائیاں قبل پاکستانی نژاد امریکی ماہر اقتصادیات اور سابق نگراں وزیراعظم معین قریشی نے پاکستان کی معدنی دولت کے ذخائر سے استفادہ کرنے کا خواب دیکھا۔ انہوں نے کان کنی کے بین الاقوامی اداروں کو راغب کرنے کا نظریہ پیش کیا اور عالمی سطح پر ہونے والے معاہدے اُور شراکتی کاروبار کے بہترین طریقوں پر عمل پیرا ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اِس وژن کے نتیجے میں معروف کاروباری کمپنیوں جن میں کینیڈا کی بیرک گولڈ اور چلی کی انٹوفاگسٹا نے سرمایہ کاری اور پاکستان کے ساتھ شراکت داری میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بیرک گولڈ اور انٹوفاگسٹا نے ریکوڈک منصوبے کی تلاش کے مرحلے میں 220 ملین ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کی تھی۔سترہ سال قبل 18فروری 2008 ء کو تیرہویں قومی اسمبلی کے لئے عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی ابھری جس نے مرکز میں حکومت تشکیل دی۔ بائیس مارچ دوہزارنو کو افتخار چوہدری پاکستان کے 20ویں چیف جسٹس بنے، جس سے تازہ دم عدالتی سرگرمیوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔سال 2011 ء میں ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی)، جو بیرک گولڈ اور انٹوفاگسٹا کا مشترکہ منصوبہ ہے، نے کان کنی کی لیز کے لئے درخواست دی۔ افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے ٹی سی سی کی درخواست مسترد کردی۔ اس سے بین الاقوامی کاروباری برادری کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی اور ٹی سی سی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اس منصوبے کو تباہ کن دھچکا لگا۔جولائی 2019ء میں انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) نے پاکستان کو بڑا جھٹکا دیتے ہوئے ٹی سی سی کے حق میں 5.8 ارب ڈالر ہرجانے کا اعلان کیا۔ لیکن قیمت یہیں نہیں رکی۔ 2013ء سے 2019ء کے درمیان پاکستان کو سالانہ 3.5 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ عدالت کے ایک فیصلے کی قیمت تیس ارب ڈالر کے جرمانے، ہرجانے اور آمدنی کے مواقعوں سے محرومی کی صورت سامنے آئی۔عالمی گورننس کی تاریخ میں پہلی بار کسی پاکستانی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ساتھ مل کر ایک سو ارب ڈالر کے قومی اثاثے کو 5.8 ارب ڈالر کی ذمہ داری میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی جو ایک بے مثال غلطی ہے۔ دسمبر 2022ء میں فوج کے ایک دو ستارے جنرل نے ریکوڈک منصوبے پر تصفیے کے معاہدے کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی سفارتی حکمت عملی مرتب کی۔ اس اسٹریٹجک آپریشن کی وجہ سے پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں عالمی سرمایہ کاری کی اُمید پیدا ہوئی۔پاکستان کی وسیع تر بھلائی کے لئے ریکوڈک میں عالمی سرمایہ کاری جاری رکھنے اور اِس منصوبے کی معاشی صلاحیت سے استفادے کے لئے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے جس کے لئے نہ صرف حکمت عملی میں جرأت مندانہ تبدیلی نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس پر عمل بھی ہونا چاہئے۔ اس منصوبے کو اسٹاک ایکسچینج میں عوامی لسٹنگ کے ذریعے جزوی نجکاری کے ذریعے بھی پبلک کرنا چاہئے۔ گھانا میں واقع گولڈ فیلڈز (جی ایف آئی) کے حصص جوہانسبرگ اسٹاک ایکسچینج (جے ایس ای) اور نیویارک اسٹاک ایکس چینج (این وائی ایس ای) دونوں میں درج ہیں۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں واقع اینگلو گولڈ آشانتی (اے این جی) بھی جے ایس ای اور این وائی ایس ای میں فروخت کے لئے پیش کی گئی ہے۔ ریکوڈک میں حکومتی مداخلت کم سے کم ہونی چاہئے۔ ریکوڈک سے متعلق کسی بھی سطح اور کسی بھی قسم کی فیصلہ سازی کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور اِسے غیر مرکزی حیثیت دی جانی چاہئے۔ ریکوڈک میں شفافیت اور احتساب کو بڑھایا جائے۔ ریکوڈک سے متعلق مستقبل کے فیصلے ٹھوس مالی اور تجارتی غور و فکر پر مبنی ہونے چاہئیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
خوردنی اجناس کی برآمدات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیات اور انسانی حقوق
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی کا سال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ: دوسرا دور اقتدار اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت کے کرشمے
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل ایکوسسٹم: معاشی وجودی بحران
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں اور ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
متبادل توانائی پر منتقلی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بذریعہ تعلیم: مثبت تبدیلی کی کوشش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کوانٹم کمپیوٹنگ کے سو سال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام