آب و ہوا کی تبدیلی: صنفی ہلاکتیں 

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان میں صنفی عدم مساوات کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ نسبتا ًخواتین موجودہ سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور قانونی عدم مساوات کی وجہ سے زیادہ مایوس کن حالات کا شکار ہیں۔ ملک کے دیہی علاقوں میں خاص طور پر خواتین کا کردار اہم ہے۔ وہ اپنے کنبوں (فیملیز) کے ساتھ کھیتوں پر کم تنخواہ والے مزدوروں یا بغیر معاوضے کے مزدوروں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ خواتین کو زمین، قرض، زرعی سازوسامان اور کھیتی باڑی کے روایتی طریقوں تک رسائی نہیں، یہی وجہ ہے کہ سیلاب، سمندری طوفان، خشک سالی اور شدید بارش جیسے ماحولیاتی تبدیلیاں ان کے لئے خوراک کے تحفظ کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ حالات خواتین کے لئے غذائی تحفظ اور آمدنی کو شدید خطرے میں ڈالے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے ہر ایک کے لئے بدلتے ہوئے ماحولیاتی حالات سے نمٹنا یا اس کے مطابق ڈھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین لکڑی، پانی اور دیگر ضروریات جمع کرتی ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے جنگلات اور پانی کے ذرائع ختم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بنیادی گھریلو ضروریات کا حصول ماضی کی نسبت بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اس سے خواتین پر کام کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور تعلیم، کمیونٹی کی مصروفیت اور آمدنی محدود ہو گئی ہے۔موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں ملیریا، ڈینگی اور ہیضے جیسی بیماریوں میں اضافے کا سبب ہے۔ زیادہ تر گھرانوں میں خواتین ہی، بیمار خاندان کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور وہ یہ خدمات بلا معاوضہ فراہم کر رہی ہوتی ہیں جبکہ آب و ہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والی خوراک کی کمی خواتین اور بچوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرنے کا باعث ہے۔ خوراک کی قلت کے دور میں، ثقافتی اصول یہ ہے کہ مردوں اور لڑکوں کو ترجیح دی جائے جس کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں میں غذائی قلت کی شرح زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ غذائی قلت خواتین کو کمزور کرتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بیماریوں کا شکار رہتی ہیں اور گھریلو آمدنی میں حصہ ڈالنے کی صلاحیت
 بھی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں قدرتی آفات کی وجہ سے ہر سال لاکھوں افراد بے گھر ہو رہے ہیں۔ اس طرح ہونے والی نقل مکانی کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیاں انتہائی غیر محفوظ ہیں اور انہیں عارضی پناہ گاہوں میں یا نقل مکانی کے دوران تشدد، اسمگلنگ اور استحصال کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بے گھر ہونے والی خواتین اکثر تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معاشی مواقع تک رسائی نہیں رکھتیں‘ جس سے وہ اُن کی صحت خراب ہوتی ہے اور اُنہیں زیادہ محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔نقل مکانی روایتی کمیونٹی ڈھانچے اور سوشل سپورٹ نیٹ ورکس میں خلل ڈال سکتی ہے جن پر خواتین بحران کے وقت انحصار کرتی ہیں۔ جس سے وہ الگ تھلگ ہو کر رہ جاتی ہیں اور اُن کا زیادہ استحصال ہوتا ہے۔ قدرتی آفات کے بعد، معاشرتی عدم استحکام اور معاشی تناؤ اکثر صنف کی بنیاد پر تشدد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو گھریلو تشدد‘  ہراسانی اور جبری شادیوں کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات، جیسا کہ فصلوں سے کم پیداوار کی صورت  آمدنی کا نقصان اور کم عمری کی شادیوں کی شرح میں اضافے ہوتا ہے کیونکہ خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی کرکے مالی بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عمل لڑکیوں کو تعلیم اور مستقبل کی معاشی آزادی سے محروم کرتا ہے اور غربت و عدم مساوات کو برقرار رکھتا ہے۔ قدرتی آفات، جیسا کہ سیلاب اور خشک سالی، اکثر اسکولوں کی تباہی اور نقل مکانی کا سبب بنتی ہیں۔ لڑکیوں کو گھر کے کام کاج میں مدد کرنے، چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال یا بحران کے وقت
 خاندان کے ذریعہ معاش کی مدد کرنے کے لئے اسکول سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں، تباہی کے بعد تعلیم کے بنیادی ڈھانچے تک رسائی کا فقدان لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کی صلاحیت کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے چونکہ آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والے زرعی نقصانات یا نقل مکانی کی وجہ سے خاندانوں کو بڑھتے ہوئے مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا وہ لڑکیوں پر لڑکوں کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔ لڑکیوں سے اکثر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر پر رہ کر مدد کریں یا مالی بوجھ کم کرنے کے لئے جلد ہی شادی کر لیں‘ جس سے ان کی ذاتی اور معاشی ترقی کے طویل مدتی مواقع کم ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، خواتین کی اکثریت کو کمیونٹی اور سیاسی فیصلہ سازی کے عمل سے الگ رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کے بہت سے حصوں میں ثقافتی اقدار ایسی ہیں کہ اِن میں خواتین کی شرکت محدود رہتی ہے۔ مرد عام طور پر زمین کی ملکیت، پانی کے انتظام اور آفات سے نمٹنے کے بارے میں فیصلوں پر حاوی ہوتے ہیں حالانکہ خواتین گھریلو سطح پر آب و ہوا سے متعلق چیلنجوں کا خمیازہ برداشت کرتی ہیں۔ اس سے خواتین کی پسماندگی کو تقویت ملتی ہے اور آب و ہوا سے مطابقت کے حل میں حصہ لینے کی ان کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے۔ قانونی اور ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے پاکستان میں خواتین کو اکثر زمین اور جائیداد کے حقوق تک محدود رسائی حاصل ہوتی ہے۔ خواتین کو مالی وسائل جیسا کہ قرضوں تک کم رسائی حاصل ہے، جو آب و ہوا سے نمٹنے والی ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور آمدنی کے ذرائع متنوع بنانے کے لئے اہم ہیں۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے صنفی طور پر حساس موسمیاتی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو خواتین کی کمزوریوں کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کریں جبکہ پاکستان میں آب و ہوا سے مطابقت اور لچک پیدا کرنے کی کوششوں میں خواتین کے کردار کو تسلیم کرنے اور اِس میں اضافے کی بھی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مرتضیٰ تالپور۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)