پاکستانی روپے پر دباؤ برقرار ہے اور عیدالاضحی سے قبل ڈالر کی قدر مستحکم ہونے کا عمل عید تعطیلات کے بعد بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ذہن نشین رہے کہ عید تعطیلات سے قبل ڈالر کی قدر میں ایک فیصد کا اضافہ دیکھا گیا اور یہ روپے کے مقابلے میں 161روپے 48پیسے کا ہوگیا جو ڈالر کی 9ماہ کی بلند ترین سطح ہے۔ ڈالر کی طلب میں اچانک اضافے نے کرنسی مارکیٹ کو حیرت زدہ کر رکھا ہے۔ انٹر بینک مارکیٹ سے متعلق کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ پورے دن ڈالر کی بلند سطح پر تجارت ہوئی اور یہ ایک سو اکسٹھ روپے اڑتالیس پیسے پر بند ہوا جبکہ اِس سے قبل یہ 159.94 روپے پر بند ہوا تھا۔اس سے قبل تیئس اکتوبر دوہزاربیس کو ڈالر 161.51روپے تک جا پہنچا تھا۔ کرنسی ڈیلر نے انٹر بینک مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی طلب کو ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی کوئی کمی نہیں تاہم درآمدات میں اضافے کے باعث تجارتی فرق بڑھا ہے اور دباؤ کے باعث ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر افراتفری کا ماحول پیدا نہ کیا گیا تو ڈالر کی قیمت میں ہونے والا اچانک اضافہ آئندہ چند ہفتوں میں کم ہو جائے گا کیونکہ مارکیٹ میں ڈالروں کی کمی نہیں ہے تاہم درآمد کنندگان نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئندہ ہفتوں میں ڈالر کی قدر مزید بڑھے گی اور درآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوگا۔ اس رجحان کے باعث مستقبل کی درآمدات کیلئے ڈالر کی بکنگ میں پہلے ہی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ماہئ جولائی میں انٹر بینک میں ڈالر کی طلب میں بیس فیصد اضافہ ہوا۔ اِس سلسلے میں سٹیٹ بینک نے بھی اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ میں اس بات کی توثیق کی ہے کہ مالی سال دوہزاراکیس میں درآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے برآمد کنندگان کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ برآمد کنندگان کی جانب سے ڈالر کی قیمت ایک سو اکسٹھ روپے کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جو برآمدات بڑھانے کیلئے حکومت سے زیادہ سے زیادہ سہولیات چاہتے ہیں۔اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو ڈالر کی موجودہ قیمت گزشتہ سال کے مقابلے کم ہے۔ کورونا کی عالمی وبا کے باعث اگست دوہزاربیس میں ڈالر کی قیمت 168روپے تک پہنچ گئی تھی۔ اِس سلسلے میں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ سرمایہ کاری پر انکوائری سے استثنیٰ رواں سال تیس جون کو ختم ہوگیا ہے‘ جو روپے کی بے قدری اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ ہو سکتا ہے۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سے پیدا ہوئی صورتحال کا جائزہ اگر بینکاروں کے نکتہئ نظر سے لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’بڑھتی ہوئی برآمدات نے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی اُمید ختم کی ہے۔‘ مالی سال دوہزاراکیس میں زرمبادلہ کی شرح میں اضافے کے باوجود روپے کی قدر میں عدم استحکام دیکھا جارہا ہے جو اچانک ڈالر کی قیمت میں ایک فیصد اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈالر کی قدر میں اضافے کا براہ راست اثر اُن اشیا کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے جن کی تیاری مقامی صنعتوں میں ہوتی ہے جیسا کہ موٹرسائیکلز۔ رواں ہفتے چینی بائیک اسمبلرز نے فی بائیک کی قیمت میں پانچ سو سے دو ہزار روپے تک کا اضافہ کیا ہے جبکہ جاپانی اور چینی بائیک تیار کرنے والوں نے عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل قیمتوں میں اچانک اضافہ کر کے خریداروں کو حیران کیا تھا۔ موٹرسائیکلوں کے مجاز ڈیلروں کو قیمتوں پر نظرِ ثانی کی کوئی وجہ بتائے بغیر جاپانی اسمبلرز نے مختلف ماڈلز کی بائیک کی قیمتیں چوبیس سو سے آٹھ ہزار روپے تک بڑھا دیں۔ دوسری جانب چینی بائیک بنانے والوں نے مقامی سطح پر تیار ہونے والے پارٹس مہنگے ہونے کے ساتھ عالمی منڈیوں میں خام مال (سٹیل‘ پلاسٹ اور گوند) کی قیمت میں اضافے کو جواز بناتے ہوئے قیمتوں میں پانچ سو سے دو ہزار روپے تک کا اضافہ کیا۔ پاکستان کی مارکیٹ میں سب سے زیادہ مانگ ”اٹلس ہونڈا لمیٹڈ“ کی بنائی ہوئی مصنوعات کی ہے جنہوں نے مختلف ماڈلز پر چوبیس سو سے پانچ ہزار روپے بڑھانے کا اعلان ایک ایسے دن کیا جس روز اہل پاکستان عید منا رہے تھے۔ اِس اضافے کے بعد ہونڈا سی ڈی سیونٹی کی قیمت ساڑھے 84ہزار روپے ہوگئی جبکہ سی ڈی ڈریم کی قیمت ساڑھے نوے ہزار‘ پرائیڈر کی قیمت ایک لاکھ سترہ ہزار پانچ سو‘ سی جی ون ٹو فائیو کی قیمت ایک لاکھ اُنتالیس ہزار پانچ روپے اور سی جی ون ٹو فائیو ایس کی قیمت ایک لاکھ ستاسٹھ ہزار پانچ روپے جبکہ ان سب قیمتوں میں تین ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کو اِس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ صارفین کو کاروں اور دو پہیوں والی سواری کی قیمت میں اس وقت کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی جب اگست دوہزاربیس میں 168روپے 40پیسے کے ایک ڈالر کے مقابلے مئی 2021ء میں اس کی قیمت152 سے 153 روپے کے درمیان تھی یعنی تب درآمدی پرزہ جات اور اشیا کی قیمتیں کم ہونی چاہیئں تھیں تاہم اب روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے تو فوراً قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ ڈالر کی قیمت 161روپے 48پیسے ہونے پر موٹربائیکس کی قیمتوں میں اضافے کا جواز بنایا گیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کے محرکات کاروباری اداروں اور صنعتکاروں کی لالچ ہے‘ جس پر قابو پانے کیلئے حکومت کو فوری اور خاطرخواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عامر شفاعت خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)