نکتہئ نظر: کشمیر کی اہمیت

بھارت کی جانب سے (مقبوضہ) جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے کے 2 سال‘ پانچ اگست کو مکمل ہوئے لیکن یہ ایک ایسا’’غیرآئینی اقدام‘‘ہے جس کی مذمت سال کے ہر دن منائی جائے تو بھی کم ہو گی کیونکہ یہ انسانی حقوق کی پائمالی سے جڑا معاملہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے مذکورہ 2 سال اس بات کی تلخ یاددہانی ہے کہ ہمارے کشمیری بہن بھائی بھارت کے وحشیانہ فوجی قبضے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں‘ ایک ایسا فوجی قبضہ جس کی موجودہ دور اور انسانی تاریخ میں بہت کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ یہ موقع اِس بات کی بھی یاددہانی ہے کہ کشمیریوں کا جذبہئ حریت توانا ہے۔ کشمیریوں میں یہ جذبہ ان کے اجداد کی دین ہے جنہوں نے ڈوگرا راج کیخلاف جدوجہد کی تھی‘ گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیریوں کو ان کے حق ِخودارادیت سے محروم رکھا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی کشمیری اپنے اس حق کے حصول کے لئے کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی طرح کے مظالم اور جبر انہیں اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹا سکے۔ پاکستان اور یہاں کے عوام کے دل اپنے کشمیری بہن بھائیوں کیساتھ دھڑکتے ہیں‘ ہم نے کشمیریوں کی امنگوں اور اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی حمایت کی ہے۔ عالمی سیاست کے اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان یہ حمایت اس وقت تک برقرار رکھے گا جب تک کشمیریوں کو ان کا حق ِخود ارادیت اور ان کی آزادی نہیں دی جاتی‘ حکومت ِپاکستان مستقل بنیادوں پر مسئلہ کشمیر اور بھارت کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی پائمالیوں کو دنیا کے سامنے لارہی ہے۔ کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بات چیت ہوئی۔ دنیا بھر سے کئی قائدین اور صحافیوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت کی‘ وزیرِاعظم پاکستان‘ ان کی کابینہ اور ہماری پارلیمان نے پانچ اگست دوہزاراُنیس کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے جارحانہ اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے‘ میرے جذبات بھی ان سے مختلف نہیں ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال اور قابض بھارتی افواج کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات اس بات کا اظہار ہیں کہ کشمیری شناخت کو مٹانے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ صدیوں پرانے ڈومیسائل لاء میں تبدیلی کے ذریعے آبادیاتی تقسیم میں جبری تبدیلی اسی عمل کا حصہ ہے‘ جہاں جہاں بھی یہ قدم اٹھایا گیا ہے وہاں وہاں مقامی آبادی میں قابض قوت کے عزائم اور اقدامات کے خلاف تلخی میں اضافہ ہوا ہے۔ کشمیری قابض قوت کی جانب سے آبادی کو تبدیل کرنے کے عزائم سے لاعلم نہیں ہیں‘ بھارت نے پہلی مرتبہ اس حکمت ِعملی کا استعمال تقسیمِ برِصغیر کے وقت کیا تھا۔ نومبر 1947ء میں مہاراجہ کی ڈوگرا افواج اور آر ایس ایس کے نظریات کے حامل بلوائیوں نے جموں میں تقریباً تین لاکھ کشمیری مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ اس نسل کشی اور قتلِ عام کا نتیجہ جموں کے تقریباً دس لاکھ مسلمانوں کی جبری بے دخلی کی صورت میں نکلا۔اگرچہ پاکستان نے کبھی بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کے کسی آرٹیکل کا نفاذ تسلیم نہیں کیا تاہم آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کا نتیجہ زمینی حالات میں مادی تبدیلی کی صورت میں نکلا ہے جو کہ دو طرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان سخت اقدامات کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت کو روکنے کے لئے بھارتی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر کو ایک ایسی جیل میں تبدیل کردیا ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج مقبوضہ کشمیر میں ہر آٹھ کشمیریوں کیلئے ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ ہزاروں سیاسی قائدین‘ اساتذہ‘ سماجی کارکن‘ صحافی اور طلبہ جھوٹے مقدمات اور کالے قوانین کے تحت بھارت بھر کی جیلوں میں قید ہیں۔ کئی حریت رہنماؤں کی حالت تشویشناک ہے اور ان کے گھر والے انکے تحفظ کے حوالے سے فکر مند ہیں‘ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی ہندوتوا نظریات کی حامل سیاسی پالیسیاں اور اقدامات نہ صرف کشمیریوں کی سیاسی شناخت اور تاریخ کیلئے خطرہ ہیں بلکہ یہ خطے کے امن اور آزادی و انتخاب کی اقدار پر قائم عالمی نظام کیلئے بھی خطرے کا باعث ہیں‘ بی جے پی کی حکومت میں بھارت بہت حد تک تبدیل ہوچکا ہے اور بالادستی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے‘ بھارت طاقت کے استعمال اور فوجی مہم جوئی کے ذریعے سٹیٹس کو کو تبدیل کرنا چاہتا ہے‘مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنم لینے والے انسانی المیے سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت ایک جانب پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کررہا ہے تو دوسری جانب اس نے پراپیگنڈے (دروغ گوئی) کے تحت عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم بھی شروع کر رکھی ہے‘ ان تمام باتوں کا ذکر بھارت کی سرپرستی میں پھیلائی جانے والی غلط معلومات اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے تیار کردہ دستاویزات (ڈوزیئر) میں موجود ہے‘ بین الاقوامی شہرت یافتہ یورپی یونین ”ڈس انفو لیب“ نے پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے جعلی تنظیموں (این جی اوز) اور جعلی خبررساں اداروں (نیوز ویب سائٹس) کا استعمال کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے نظام اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کی بھارتی کوششوں کا انکشاف کیا ہے‘حال ہی میں ایک اعلیٰ بھارتی اہلکار نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بھارت فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پر سیاسی طور پر اثر انداز ہوا تاکہ پاکستان کو گرے لسٹ (مشکوک ممالک کی فہرست) میں بدستور برقرار رکھا جائے‘ یہ صورتحال پاکستان اور خطے کے حوالے سے کچھ اہم سوالات کو جنم دیتی ہے‘ ہم خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا موجودہ بھارتی حکومت ایک معقول حکومت ہے یا پھر نظریاتی شدت پسندی کی حامل ایک ناقابلِ بھروسہ حکومت ہے؟ پاکستان کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے گا‘ میں اقوامِ عالم سے مطالبہ کرتا ہوں اور انہیں یاد دلاتا ہوں کہ انسانیت کے اصول کے تحت ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے حقِ خودارادیت دلوائیں۔ مسئلہ کشمیر عالمی ضمیر کے سامنے ایک ادھورے وعدے کی حیثیت سے موجود ہے۔ (مضمون نگار صدر مملکت ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عارف علوی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)