احساس پروگرام کا مستقبل

انسداد غربت کی کوششوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے رعایت (سبسڈی) صرف اُن افراد کو دی جائے جو اِس مدد اور فلاح کے مستحق ہیں۔ اِس مقصد کیلئے سال 2019ء میں حکومت نے احساس گورننس اینڈ انٹیگریٹی پالیسی کے تحت چند اقدامات کئے جنہیں عالمی سطح پر بھی سراہا گیا کیونکہ اِن اقدامات کے پیچھے بہت ساری محنت اور گھر گھر جا کر اکٹھا کئے گئے اعدادوشمار تھے۔ خبر یہ ہے کہ حکومت مذکورہ دوہزاراُنیس کے اقدامات کو واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ذریعے 8 لاکھ 50 ہزار 126 ایسے افراد کی نشاندہی کی گئی تھی جو غیر مستحق افراد تھے اور جو ’بینظیرانکم سپورٹ پروگرام‘ سے غلط فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اِن افراد میں سرکاری عہدوں پر فائز اہلکار بھی شامل تھے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی لوگ جو ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کے فیصلہ ساز تھے اُنہوں نے اپنے حلقہئ ارباب میں بہت سے لوگوں کو ”بی آئی ایس پی (BISP)‘ میں شامل کر رکھا تھا! اگر حکومت ایسے غیرمستحق افراد کو دوبارہ ”بی آئی ایس پی“ پروگرام میں شامل کرتی ہے تو یہ سراسر قومی وسائل کا ضیاع اور مستحق طبقات کی حق تلفی ہوگی جنہیں زیادہ مالی مدد کی ضرورت ہے۔ اُمید ہے کوئی بھی ایسا اقدام کرنے سے پہلے اِس پر زیادہ سنجیدگی اور گہرائی سے غور کیا جائے گا۔ اس تناظر میں تبصرے کا مقصد ایک خاکہ پیش کرنا ہے جس میں دوہزاراُنیس کے مذکورہ فیصلے کو لیا گیا تھا۔ پالیسی کے انتخاب کی وجوہات‘ اس کے درپردہ شواہد‘ حکمت عملی‘ اس حکمت عملی پر عمل درآمد کا طریقہ کار اور اِس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے افرادی و تکنیکی وسائل کا استعمال جیسے محرکات پیش نظر رکھنے چاہئیں۔راقم الحروف نے جب سال 2018ء میں ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کے امور بطور سربراہ اپنے ہاتھ میں لئے تو اُس وقت مستحقین کے 10 سال پرانے کوائف اور اعدادوشمار کی بنیاد پر حکومت سالانہ اربوں روپے ادا کر رہی تھی اور اِس بارے میں شکایات موجود تھیں کہ بہت سے غیرمستحق لوگ بھی مالی امداد سے صرف اِس بنیاد پر فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ وہ سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ تھوڑی سی چھان بین کے بعد ’بینظیرانکم سپورٹ پروگرام‘ میں پائی جانے والی بہت سی خامیاں سامنے آئیں اور ایسے تمام غیرمستحق افراد جو حکومت سے پنشن لے رہے تھے یا ایسے سرکاری ملازمین جو حکومت سے تنخواہ و مراعات بھی لے رہے تھے اور ایسے خاندان جن کے ایک سے زیادہ افراد کو مالی مدد دی جا رہی تھی کی نشاندہی ہوئی لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ملک گیر سطح پر مستحق افراد کی نشاندہی کے لئے کچھ ایسے کوائف مرتب کئے جائیں جو سائنسی بنیادوں پر ہوں اور اِس میں ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کے وسائل کا بھی استعمال کیا جائے۔ اِس مقصد کیلئے کچھ اصول بنائے گئے۔ جیسا کہ ہر وہ شخص حکومت سے مالی امداد کا مستحق نہیں ہو سکتا جو صاحب جائیداد ہو‘ جس کے بینک اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے کی لین دین ہو رہی ہو‘ جس کے بجلی و گیس اور موبائل فون کے بل ایک ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ ہوں یا ایسے خاندان جن کے تین افراد سے زیادہ کے پاس اگر پاسپورٹ ہے تو ایسے افراد غریبوں کیلئے مختص مالی امداد کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ ذہن نشین رہے کہ کسی خاندان کے پاس ایک موٹرسائیکل یا ایک گاڑی رکھنے کو استثنیٰ دیا گیا۔ جب اِن خطوط پر سروے کیا گیا تو ایسے 8لاکھ 20 ہزار 165 غیرمستحق افراد کی نشاندہی ہوئی جن میں 1 لاکھ 42 ہزار556 سرکاری ملازمین بھی شامل تھے اور اِس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ گریڈ 17 یا اِس سے زیادہ کے 2 ہزار 543 سرکاری ملازمین ایسے تھے جو ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے تھے۔ اِس طرح لاکھ کی تعداد میں غیرمستحق افراد کو نکالنے کے بعد قریب 50 لاکھ مستحق افراد کو شامل کیا گیا اور جن سرکاری ملازمین نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ناجائز استفادہ کیا اُن کے خلاف محکمانہ کاروائیاں کی گئیں اور اکثریت کو ملازمتوں سے برطرف بھی کیا گیا۔غریبوں کی نقد مالی امداد کیلئے ”احساس ایمرجنسی کیش پروگرام“ شروع کیا گیا تو مستحق افراد کی نشاندہی کیلئے مزید سخت قواعد لاگو کئے گئے اور ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومت کی امداد کیلئے مستحق و غیرمستحق افراد کی نشاندہی کے عمل کو روکنے کی بجائے اِسے جاری رکھا جائے اور ہر تین سال بعد مستحق افراد کے کوائف کی چھان بین کی جائے کیونکہ حکومت کی امداد پر صرف مستحق افراد کا حق ہے۔ نئی حکومت کو چاہئے کہ مستحق و غیرمستحق افراد کی نشاندہی کے عمل کو روکنے کی بجائے اِس کام کو جاری رکھے اور اس میں مزید اصلاحات لائے۔ سیاسی اثر و رسوخ کو دوبارہ بحال کرنے کی بجائے اہلیت کی بنیاد پر مالی وسائل کی تقسیم (غریبوں کی فلاح و بہبود) ہونی چاہئے۔۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ثانیہ نشتر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)