توقعات کے عین مطابق مرکز کے دائیں بازو کے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے چوبیس مارچ کو ہونے والے دوہزاربائیس کے صدارتی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی رہنما میرین لی پین کو شکست دے کر صدارت کی دوسری مدت بھی جیت لی ہے۔ میکرون کو 58.5 فیصد ووٹ ملے جبکہ لی پین نے 41.5 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ میکرون سال دوہزاردو میں جیکس چیراک کے بعد دوبارہ انتخابات جیتنے والے پہلے فرانسیسی صدر ہیں۔ ان کے پیشرو نکولس سرکوزی اور فرانسوا اولاند نے صرف ایک مدت کے بعد اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا اگرچہ میکرون نے لی پین کے خلاف تقریبا سترہ فیصد کے فرق سے کامیابی حاصل کی لیکن یہ انتہائی دائیں بازو کے امیدوار کیلئے بہترین نتیجہ تھا۔ لی پین نے 2017ء کے انتخابات کے مقابلے میں 27 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کئے جبکہ میکرون کو 20 لاکھ ووٹوں کا نقصان ہوا تھا۔ انہی دو امیدواروں کے درمیان دوہزارسترہ میں ہونے والے انتخابات میں میکرون نے تقریبا چھیاسٹھ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ انتخابی نتائج واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں انتہائی دائیں بازو کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنی پوزیشن اور حمایت کی بنیاد کو مستحکم کیا ہے۔ لی پین نے پہلے راؤنڈ میں بائیں بازو کے امیدوار جین لک میلنچون کو بہت کم پیچھے چھوڑ دیا۔ میلینچون کو پہلے راؤنڈ میں 22فیصد ووٹ ملے اور وہ صرف 1.2فیصد کے معمولی فرق کے ساتھ رن آف سے محروم رہے۔ بائیں بازو نے ایک بار پھر پہلے راؤنڈ میں لی پین کو شکست دینے کے لئے مشترکہ امیدوار پیش کرنے کا موقع گنوا دیا‘ مجموعی طور پر بائیں بازو کو تقریبا تیس فیصد ووٹ ملا۔ میلینچون ایک مشترکہ بائیں امیدوار کے طور پر میکرون کے خلاف رن آف کیلئے کوالیفائی کرسکتے تھے لیکن بائیں بازو کی جماعتیں ایک بھی امیدوار پر متفق ہونے میں ناکام رہیں اور اس طرح میرین لی پین کیلئے میکرون کے خلاف انتخاب لڑنے کی راہ ہموار ہوگئی۔ یہ نتیجہ ترقی پسندوں کیلئے مایوس کن ہے جو دوسرے نمبر پر آنے اور دوسرے راؤنڈ میں میکرون کا مقابلہ کرنے کی توقع کر رہے تھے۔دوسرے راؤنڈ میں بائیں بازو کے امیدوار کی عدم موجودگی میں بہت سے بائیں بازو کے رائے دہندگان نے لی پین کے خلاف میکرون کی حمایت کی۔ میکرون کی سرمایہ دارانہ نوآموز معاشی پالیسیوں نے بہت سے کارکنوں اور بائیں بازو کے ووٹروں کو مایوس کیا۔ فرانس میں صدارتی انتخابات کا پہلا دور 10اپریل کو ہوا۔ اِس پہلے مرحلے میں کل بارہ امیدواروں نے انتخاب لڑا لیکن صرف تین امیدواروں کو 10فیصد سے زیادہ ووٹ ملے۔ میکرون‘ لی پین اور میلینچون کو بیس فیصد سے زیادہ ووٹ ملے چونکہ ان میں سے کسی کو بھی پہلے راؤنڈ میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے‘ اس لئے چوبیس اپریل کو سرفہرست دو امیدوار میکرون اور لی پین ایک دوسرے کے سامنے آئے۔ ٹرن آؤٹ تقریبا بہتر فیصد رہا جو بیس سال میں سب سے کم ہے۔ دائیں بازو کے سرمایہ دار ری پبلکن اور سوشلسٹ پارٹی کے زیر اثر فرانسیسی سیاست دونوں کئی دہائیوں سے موجود ہیں۔ ریپبلکنز کے ویلری پیکریسی تقریبا پانچ فیصد ووٹوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے جبکہ سوشلسٹوں کی این ہیڈلگو دو فیصد کی شرح سے پارٹی کیلئے ریکارڈ توڑ کم کے ساتھ دسویں نمبر پر رہیں۔ یہ سوشلسٹوں کیلئے اس کی تاریخ کا بدترین نتیجہ ہے۔ انہیں صرف دو فیصد کا مشترکہ ووٹ ملا۔ یورپ کی بہت سی دیگر سماجی جمہوری جماعتوں کی طرح فرانس میں سوشلسٹوں نے بھی گزشتہ برسوں میں کارکنوں اور متوسط طبقے میں نمایاں حمایت کھو دی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سوشلسٹوں کی جانب سے اختیار کی جانے والی نو آموز مارکیٹ نواز معاشی پالیسیاں پارٹی کیلئے مہنگی ثابت ہوئیں چنانچہ آخر میں یہ ایک طرف دائیں بازو کے‘ نیو لیبرل سرمایہ دار میکرون اور دوسری طرف ایک انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست امیگریشن مخالف اور یورپی یونین مخالف سرمایہ دار لی پین کے درمیان مقابلہ تھا۔ فرانسیسی نوجوانوں کی اکثریت نے میکرون کو ووٹ دیا۔ اٹھارہ سے چوبیس سال کی عمر کے اکسٹھ فیصد فرانسیسی نوجوانوں نے انہیں ووٹ دیا۔ میکرون کو پرانے لوگوں میں ٹھوس حمایت بھی حاصل تھی کیونکہ 60اور 70کی دہائی میں 71فیصد سے زیادہ رائے دہندگان نے ووٹ دیا تھا۔ میرین لی پین کو ادھیڑ عمر ووٹروں کی حمایت حاصل تھی۔
چالیس سے ساٹھ سالہ رائے دہندگان کی اکثریت نے اس کیلئے ووٹ ڈالے۔ بڑے شہروں نے میکرون کی حمایت کی جبکہ دیہی علاقے اور چھوٹے قصبے انتہائی دائیں بازو کے لی پین سے پیچھے چلے گئے۔ مثال کے طور پر میکرون نے فرانس کے دارالحکومت پیرس سے پچاسی فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ لی پین کو صرف پندرہ فیصد ووٹ ملے۔ میکرون نے فرانس کے مغرب میں‘ ایلے ڈی فرانس خطے‘ مشرق میں اور اوکیٹانی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جہاں سب سے زیادہ شہری آبادی رہتی ہے۔ میرین لی پین نے فرانس کے جنوب مشرق‘ شمال اور غیر صنعتی علاقوں جیسا کہ مشرق میں‘ پیرس کے علاقے کے مشرقی دائرے کے ساتھ جنوب مغرب میں اچھی انتخابی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کورسیکا اور سمندر پار علاقوں میں کامیابی حاصل کی جہاں لوگ زیادہ تر دیہات اور چھوٹے شہروں میں رہتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے امیر‘ بالائی اور متوسط طبقے کے طبقات کی اکثریت نے میکرون کی حمایت کی جیسا کہ گریجویٹس اور ماہانہ تین ہزار یورو سے زیادہ کمانے والے لوگوں کی اکثریت نے کیا۔ دوسری طرف کم آمدنی والے اور کم تعلیم یافتہ طبقات کی اکثریت نے لی پین کو ووٹ دیا جو ماہانہ تیرہ سو یورو سے کم کمانے والے چھپن فیصد افراد نے ہیں جبکہ ستاون فیصد ملازمین‘ ستاسٹھ فیصد کارکنوں اور چونسٹھ فیصد بے روزگاروں نے بھی انہیں ووٹ دیا۔ 1969ء کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں ریکارڈ تعداد میں رائے دہندگان نے ووٹ دینے سے گریز کیا تھا جبکہ اِن کی غیر حاضری کی تعداد اکتیس فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ بے روزگار نوجوان اور بہت سے کارکن اپنی معاشی صورتحال اور مہذب ملازمتوں کی کمی سے خوش نہیں۔ مزدور طبقے کے نوجوانوں کے لئے زیادہ افراط زر‘ زندگی کی بڑھتی ہوئی لاگت‘ ملازمتوں کے کم مواقع‘ رہائشی بحران اور گرتی ہوئی آمدنی تشویش کے حقیقی مسائل ہیں۔ وہ صحت کی بہتر سہولیات‘ اجرت میں اضافہ اور کم لاگت میں سہولیات چاہتے ہیں۔ میکرون کی جیت نہ صرف فرانسیسی سرمایہ داروں بلکہ یورپی یونین کے رہنماؤں کیلئے بھی راحت کی علامت ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی لی پین کی جیت یورپی یونین کے رہنماؤں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب ہوسکتی تھی۔ وہ یوروکے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور یورپی یونین کی سخت مخالف ہیں۔ اس کی جیت یورپی یونین کے منصوبے کیلئے تباہ کن دھچکا ہوسکتی تھی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: خالد بھٹی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)